Maktaba Wahhabi

276 - 335
سنتے ہیں ۔ اگر نمازِ جمعہ کے بعد بھی کسی عالم کی تقریر کا اعلان ہو جائے تو حاضرین میں سے ایک فرد بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ مغربی پاکستان کی صورت حال اس سے مختلف ہے، افسوس ہے کہ اس کے بعد ملاقات نہ ہوسکی۔ مولانا محترم استاذ مکرم،مولانا محمد جوناگڑھی مرحوم کے ہم زلف تھے۔ 11۔ مولانا عبد الغفورصاحب، ضلع بستی: ’’مولانا موصوف ۱۹۳۳ء کے شروع میں رحمانیہ تشریف لائے۔ یہ میرا آخری تعلیمی سال تھا۔ یوں سمجھیے کہ مولانا عبد اﷲ ندوی اور مولانا عبدالغفور صاحب دونوں کی آمد کا سال ایک ہی تھا۔ مولانا موصوف نے دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ ادبی ذوق اچھا تھا۔ عربی انشاء اور ترجمتین کے لیے ہماری جماعت ان سے استفادہ کرتی تھی۔ بڑے خوش اخلاق، متواضع اور طلبا کے لیے مشفق و مربی استاذ تھے۔ افسوس ہے کہ ان سے زیادہ استفادے کا موقع نہ مل سکا۔ مولانا موصوف مولانا اعزاز علی مرحوم کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ 12۔ مولانا محمد شریف صاحب پشاوری: ’’ان سے ہماری جماعت نے حسبِ ذیل کتابیں پڑھیں : شر ح وقایہ، قدوری اور شرح تہذیب، شرح جامی، کافیہ شافیہ اور رشیدیہ جزوی طورپر، نیز محیط الدائرہ، قطبی۔ مولانا موصوف کے پڑھانے کا انداز اچھا تھا۔ طلبا کے ساتھ اس طرح میل جول رکھتے تھے، جیسے بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں سے رکھتے ہیں ۔ عام طور پر اساتذہ کم آمیز ہوتے ہیں ، لیکن استاذِ محترم اس کے برعکس تھے۔ حنفی ہونے کے باوجود کبھی انھوں نے
Flag Counter