Maktaba Wahhabi

328 - 717
اجتماع رہا ہے، اس کی آخری مثالیں مولانا شمس الحق صاحب ڈیانواں عظیم آباد پٹنہ، مولوی رفیع صاحب محدث شکرانواں ضلع پٹنہ، مولانا قاری عبد اللہ صاحب بازید پور، مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آباد ضلع دربھنگہ وغیرہ ہیں ۔‘‘[1] اللہ رب العزت نے مولانا بازید پوری کو دولت و ثروت کی فراغت عطا کی تو انھوں نے اللہ کے دین کی خدمت میں اس دولت کو لگایا۔ قرآن کریم کی محبت ان کے دل میں راسخ ہو گئی تھی، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بازید پور میں ’’مدرسہ تجوید القرآن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ فنِ قراء ت کے ماہر تھے۔ خود ہی تدریس کے فرائض انجام دیتے اور کتبِ فقہ و حدیث بھی پڑھاتے۔ چونکہ عامل بالحدیث تھے، اسی لیے جمود میں مبتلا مقلدین کو مولانا کی مساعی پسند نہیں آئیں ۔ مولانا حکیم عبد الحی حسنی لکھتے ہیں : ’’وأسس ببلدتہ مدرسۃ لتجوید القرآن، وکان ممن لا یلتزم المذھب المعین بل یعمل بظواھر النصوص، ولذلک أوذي من أھل بلدتہ فخرج من البلد و تدیر خارجھا، و أوقف علی تلک المدرسۃ خمسۃ و سبعین فداناً من الأرض الخراجیۃ‘‘[2] ’’اپنے شہر میں مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھی۔ آپ ان میں سے ہیں جو کسی مذہب معین کا التزام نہیں کرتے تھے، بلکہ ظاہر نصوص پر عمل پیرا ہوتے۔ اسی وجہ سے ان کے اہلِ شہر نے ان کو سخت اذیت دی اور شہر سے باہر نکال دیا۔ آپ شہر کے اطراف ہی میں گھومتے رہے۔ اپنے مدرسے کے لیے ۷۵ مربع زمین خراجی وقف کی۔‘‘ ایک طویل عرصے کی صبر آزمامشقت کے بعد حالات بدلے اور مولانا کی تبلیغی مساعی رنگ لائیں ۔ مولانا بازید پوری نے پٹنہ، نالندہ، گیا اور مونگیر کے اضلاع میں تبلیغی مساعی انجام دیں ۔ علم و فضل: مولانا حکیم عبد الحی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
Flag Counter