Maktaba Wahhabi

366 - 717
سید نذیر حسین محدث دہلوی سے تعلقِ خاص شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے ساتھ مولانا کو جو شرفِ مصاحبت حاصل رہی، وہ میاں صاحب کے کسی دوسرے تلمیذِ رشید کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اس ربطِ خاص کی مدتِ طوالت ۲۶ برس ہے۔ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں : ’’مولوی تلطف حسین محی الدین پوری جو تقریبا چھبیس برس شیخ کے ملازمِ خدمت رہے اور زمانۂ طالبِ علمی سے قبر تک ساتھ نہ چھوڑا۔ سفرِ حج میں بھی ساتھ تھے..... دھن کے پورے اور ارادے کے پکے آدمی ہیں ۔‘‘[1] حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے مدرسے کے منتظم و منصرم بھی تھے اور استاد بھی۔ طلابِ علم کی نگرانی اور دیکھ بھال انہی کے ذمے تھی۔ مطبخ کا سارا نظام سنبھالتے تھے۔ سید نذیر حسین کو اپنے اس لائق تلمیذِ رشید پر خصوصی اعتماد تھا۔ اپنے ذاتی نوعیت کے کاموں کے لیے بھی سید صاحب اپنے اس شاگرد کو بلا جھجک حکم صادر کیا کرتے تھے۔ خود مولانا بھی سید صاحب کے انتہائی چہیتے تھے۔ سفرِ حج میں اپنے استادِ گرامی کی جس طرح خدمت کی اور مصائب میں جس طرح ساتھ نبھایا، وہ علم و اخلاق کی دنیا میں ایک بہترین مثال ہے۔ سفرِ حج: ۱۳۰۰ھ میں شیخ الکل السید الامام نذیر حسین دہلوی نے فریضۂ حجِ بیت اللہ ادا کرنے اور حرمین شریفین کی حاضری کا عزم کیا۔ اس عزم و ارادے کی اطلاع جب مخالفین کو ملی تو انھوں نے کمر کس لی کہ کسی طرح شیخ الکل کو مکہ مکرمہ سے زندہ واپس نہ جانے دیں گے۔ اس سے چند برس قبل حجازِ مقدس میں عاملینِ بالحدیث کے ساتھ ناروا سلوک کی اطلاعات پہنچ چکی تھیں ۔ سیّد میاں نذیر حسین ہندوستان میں عاملینِ بالحدیث کے اکابر و مقتدا تھے، یقینی تھا کہ میاں صاحب بھی اسی ناروا سلوک کا شکار ہوتے۔ اس لیے احتیاطاً انھوں نے اس وقت کی ہندوستانی حکومت، یعنی حکومتِ برطانیہ کے افسران سے اپنے لیے خطوط ساتھ لے لیے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آ سکیں ۔ ایک خط کمشنر دہلی کا تھا
Flag Counter