Maktaba Wahhabi

410 - 717
’’تھذیب التہذیب‘‘، ’’لسان المیزان‘‘ کلھا للعلامۃ ابن حجر العسقلاني، ’’الجزء الثاني من المؤتلف و المختلف‘‘ للإمام الدارقطني، ’’الجزء الثاني من کتاب الکشف لمشکل الصحیحین‘‘ لابن الجوزي، ’’شرح ألفیہ الحدیث‘‘ للعراقي، ’’طبقات القراء‘‘، ’’میزان الاعتدال‘‘ کلاھما للحافظ الذھبي، ’’مسند أبي داود الطیالسي‘‘، ’’تفسیر الکشاف‘‘، ’’فتح العلام بشرح الإعلام بأحادیث الأحکام‘‘ لقاضي ابن زکریا یحیی الأنصاري، ’’إحیاء علوم الدین‘‘ للغزالي، ’’معالم التنزیل‘‘ للإمام البغوي، ’’الجامع الصغیر‘‘ للسیوطي ..... وغیرہا شامل ہیں ۔‘‘[1] امام حافظ ابوبکر محمد بن عبد اللہ الاشبیلی المعروف بابن العربی المالکی (م ۵۴۶ھ) کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’عارضۃ الأحوذي في شرح الجامع للترمذي‘‘ کا ایک قلمی نسخہ بھی کتب خانہ شکرانواں میں موجود تھا۔[2] غالباً مولانا نے اسے مدینہ منورہ کے کتب خانے سے نقل کروایا تھا۔ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری ۱۹۱۹ء میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں : ’’صوبہ بہار میں کتبِ حدیث و تفسیر کے دو جید کتب خانے موجود ہیں ۔ ایک ڈیانواں مولانا شمس الحق صاحب مرحوم کا اور دوسرا شکرانواں مولوی رفیع الدین صاحب مرحوم کا۔ میرے خیال میں اب دونوں معرضِ خطر میں ہیں ۔‘‘[3] فضل الحق آزادؔ عظیم آبادی سے روابط: مولانا شکرانوی بڑے وسیع النظر اور وسیع المشرب تھے۔ ان کا حلقۂ روابط مختلف طبقاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا۔ عظیم آباد کے علما، فضلا، شعرا، ادبا، اطبا اور وکلا سب ہی ان کے درِ دولت پر حاضر ہوتے اور مولانا بھی ان سے اپنے مراسم نبھاتے۔ بہار کے مشہور شاعر سیّد فضل الحق آزادؔ سے بڑے روابط تھے۔ آزادؔ نے اپنے ایک قصیدے میں مولانا کا ذکر بھی کیا اور ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ فرماتے ہیں :
Flag Counter