Maktaba Wahhabi

475 - 717
شمار اپنے اکابر کی حیثیت سے نہیں کیا۔ اسی طرح مولانا ابراہیم سے منسوب کسی مکتوب کی نسبت بھی کسی واہمے سے کم نہیں ۔ ایسا کوئی خط اگر مولانا نے لکھا ہوتا تو فطری طور پر یہ خط اب تک کئی بار طبع ہو چکا ہوتا۔ وہ اصحابِ علم جو محض ظن و تخمین کی بنیاد پر ایسے بلند و بانگ دعاوی کر رہے ہیں ، اگر حقیقتاً کسی مکتوب کا وجود ہوتا تو اسے یقینا پیش کرتے۔ اس قصے کی حیثیت محض ایک شگوفے سے زیادہ نہیں ۔ مولانا کی آخری زندگی بھی اُجلی اور روشن ہے۔ اس پر پردئہ خفا کی دبیز چادر نہیں چڑھی۔ وہ ایک زاہد و مرتاض اور صاحبِ دل بزرگ تھے، اور یہ دولت انھیں حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی، حضرت مولانا شاہ ضیاء النبی رائے بریلوی اور حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی رحمہم اللہ کے فیضِ صحبت سے حاصل ہوئی تھی، جو تمام عمر ان کے شاملِ حال رہی۔ ایک طنز اور اس کا جواب: مولانا مناظر احسن گیلانی ہی کے قلم سے ایک طنز بھرا قصہ بھی پڑھیے، لکھتے ہیں : ’’اس موقعہ پر ایک لطیفہ کا بار بار خیال آ رہا ہے، میں نے براہِ راست بانیِ ندوۃ العلماء حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ سے یہ روایت سنی ہے کہ حضرت کے پیر و مرشد مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی ۔تغمدہ اللّٰه بغفرانہ۔ کی خدمت میں فرقہ اہلِ حدیث کے ایک ممتاز و نمایاں عالم وہیں حاضر ہوئے۔ مولانا ابراہیم سے جب ملاقات ہوئی تو حضرت گنج مراد آبادی نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ عامل بالحدیث ہیں ؟ بولے: جی ہاں ، الحمد للہ۔ مولانا نے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے وقت کون سی دعا پڑھتے تھے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ اس وقت یاد نہیں ہے۔ پوچھا کہ گھر سے نکلتے وقت کیا پڑھتے تھے؟ بولے وہ بھی یاد نہیں ہے۔ الغرض یوں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اوقات اور مقامات میں جو دعائیں پڑھا کرتے تھے جیسے اکثر مولویوں کو عموماً یاد نہیں ہوتیں ، مولوی صاحب بیچارے کو بھی یاد نہ تھی۔ تب مولانا نے ان ہی اہلِ حدیث مولوی صاحب کو خطاب کر کے کہنا شروع کیا: کیوں مولانا! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف اختلافی حدیثوں کو یاد کیا ہے، لیکن جن حدیثوں کے متعلق کسی کا کوئی اختلاف نہیں
Flag Counter