Maktaba Wahhabi

127 - 208
تشنیع وغیرہ کا کوئی لفظ تک استعمال نہ کرتے تھے۔ اے کاش کہ آج کے اہلِ علم اور معاصرین علماء بھی یہی طریقہ اختیار کرلیں تاکہ وہ بہت بڑا دروازہ بند ہوجائے جس سے شیطان علماء و اہلِ علم کی صفوف میں گھس آتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ وَاِخْوَانَنَا الْمُسْلِمِیْنَ۔[1] بالکل یہی بات ڈاکٹر عبد اللہ عبد العزیز الزاہدی نے بھی بیان کی ہے۔[2] الشیخ البانی اور الشیخ ابن باز: ہمارے ممدوح علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے تبحّر علمی، اس میدان میں ان کی عالی مقامی اور گہری دسترس کا پتہ دیتے اور اعتراف کرتے ہوئے ان کے شاگرد اور دار الافتاء میں ہی ریسرچ فیلو کے طور پر کام کرنے والے ہمارے فاضل دوست جناب ڈاکٹر محمد لقمان سلفی صاحب ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میرے شیخ محدّثِ عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ایک علمی لیکچر دیا جو کہ محدّثین کا انداز لیے ہوئے تھا، لوگوں نے ان کا وہ خطاب بالکل اسی طرح توجہ کے ساتھ سنا جیسے تلامذہ اپنے استاذ کا درس سنتے ہیں۔ان کا یہ خطاب سن کر سب دم بخود رہ گئے اور روایت و درایتِ حدیث کے میدان میں علامہ مرحوم کی وسعتِ علمی اور گہری دسترس کا اعتراف کرنے لگے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ ان کے بعد اب کسی کو بولنے کا یارا نہ ہوگا کہ ان کے آجانے کے بعد تو گویا چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی لیکن میرے شیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ اپنی جگہ سے اٹھے اور علامہ محدث محمد ناصر الدین البانی کے خطاب پر تعلیق و تبصرہ کیا اور ان کے خطاب پر نہ صرف ان کا شکریہ ادا کیا بلکہ ان کے علم کی وسعت و گہرائی کا اعتراف بھی کیا۔
Flag Counter