Maktaba Wahhabi

128 - 208
یہ واقعہ میرے نزدیک اس بات کی ایک دلیلِ قاطع ہے کہ شیخ ابن باز کا علمی مرتبہ بہت بلند تھا اور کتاب و سنّت کے علوم میں وہ اپنے معاصرین کے صفِ اول کے لوگوں میں سے تھے۔ اس طرح کے واقعات کی بناء پر میرے ذہن میں ان کا علمی مقام و مرتبہ جاگزیں ہوگیا۔[1] شیخ البانی رحمہ اللہ کا ان کے یہاں مقام: معروف سعودی شخصیت ابو عبد الرحمن الظاہری لکھتے ہیں کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ عمل و منہج میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہ قریب ترین تھے، وہ لوگوں کے ساتھ انتہائی نرم انداز سے معاملہ کیا کرتے اور ان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے کوشاں رہتے لیکن اگر کوئی شخص نرمی قبول نہ کرتا تو اپنے اثر و نفوذ کو بھی بروئے کار لایا کرتے تھے۔ معروف ادیب احمد عبد الغفور عطار۔عفا اللہ عنہ۔ (مؤلّف کتاب: محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ) نے جب اپنی کتاب’’ویلک آمن‘‘ لکھی جو کہ محض صحافیانہ تحریک اور لگائی بجھائی کا نتیجہ تھی اور اس میں علمی و تحقیقی انداز اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ شیخ نے وہ کتاب دیکھی جس میں شیخ البانی رحمہ اللہ پر بلا دلیل تابڑ توڑ حملے کیے گئے تھے تو عطار کو خط لکھ کر سمجھانے کی کوشش کی پھر اپنے پاس سعودی عرب بلا بھیجا اور بڑے نرم انداز سے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور ان کے لیے دعائیں بھی کیں لیکن جب دیکھا کہ وہ اپنی بات پر مُصر ہیں،حجت و دلیل سے بھی باز آنے کو تیار نہیں اور انانیت و عناد کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو پھر اپنا اثر و نفوذ استعمال فرمایا، جتنے نسخے سعودی عرب میں آچکے تھے انھیں جلانے کا حکم دے دیا اور آئندہ اس کتاب کا سعودی عرب میں داخلہ ہی بند کردیا۔[2]
Flag Counter