Maktaba Wahhabi

130 - 208
گیا اور میری بعض رکعتیں بھی جماعت سے چھوٹ گئیں۔جب امام نے سلام پھیرا جو کہ ریاض کے قاضی (جسٹس) شیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ تھے اور وہ میرے استاذ بھی تھے۔ انھوں نے سلام پھیر کر مجھے صف کے ایک کنارے پر بقیہ رکعتیں پڑھتے دیکھا تو اس بات سے وہ بہت متاثر وخفا ہوئے۔ انھوں نے حمد و ثناء باری تعالیٰ اور خطبۂ مسنونہ کے بعد گفتگو شروع کی اور فرمایا: ’’بعض لوگ گپیں ہانکنے اور دوسرے امور میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ان کی باجماعت نماز تک چھوٹ جاتی ہے۔‘‘ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں سمجھ گیا کہ ان کا اشارہ صاف سیدھا میری طرف ہے۔ وہ دن اور آج کا دن! میں کبھی صفِ اول اور رکعتِ اُولیٰ سے لیٹ نہیں ہوا اور میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اسے میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔‘‘[1] وقت کی قدر و قیمت اور عبادت و نشاط: ڈاکٹر ناصر لکھتے ہیں کہ مجھے بعض دعاۃ و مبلّغین نے بتایا ہے کہ ایک مرتبہ شیخ رحمہ اللہ ریاض سے مکہ مکرمہ کے لیے بائی روڈ روانہ ہوئے اور اسی راستے واپس بھی آئے۔ دورانِ سفر جب رات کے بارہ بج گئے تو شیخ نے فرمایا: کیا خیال ہے اگر کچھ سولیں اور بقیہ سفر صبح شروع کردیں ؟ سب نے ان کی رائے پر موافقت کی کیونکہ سبھی تھکے ہوئے تھے، نیند کا غلبہ تھا، آرام کرنا چاہتے تھے۔ جب گاڑی سے اترے تو سب اِدھر اُدھر جاکر سوگئے لیکن شیخ نے پانی منگوایا، وضو کیا اور نوافل پڑھنا شروع کیے اور جتنی اللہ نے توفیق بخشی نماز پڑھی اور پھر سوگئے، جب باقی سب لوگ نمازِ
Flag Counter