Maktaba Wahhabi

190 - 208
جس پر کام شروع ہوچکا ہے، اور تادمِ طباعتِ کتاب وہ منصوبہ مکمل بھی ہوچکا ہے۔[1] شہزادے نے اپنے تعزیتی مضمون یا مرثیہ میں جو کہ بڑے کتابی سائز کے چار صفحات پر مشتمل ہے، علامہ ابن باز کو امام اہلِ السنہ والجماعۃ، وحیدِ عصر، علامۂ زمان اور آسمانِ علم کا روشن ستارہ، چودہویں رات کا ماہتاب بلکہ آفتابِ نصف النہار قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک پوری جامعہ (یونیورسٹی) تھے۔ میرا دل ان کی محبت اور عزّت و احترام سے لبریز ہے کیونکہ میرے والد خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بکثرت عام علماء کرام اور خاص طور پر اس امامِ وقت کا انتہائی احترام سے تذکرہ فرمایا کرتے ہیں۔وہ تقلید وجمودِ فکری سے آزاد، دلیل کے دلدادہ عالم و مفتی تھے۔ انھوں نے سعودی عرب سے باہر کبھی سفر اختیار نہیں کیا لیکن پھر بھی وہ عالمی و آفاقی شخصیّت تھے۔ مسلمانوں کے معاملات میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے، مسئلۂ فلسطین ہو یا جہادِ افغانستان، صومال، بوسنیا ہرزی گوینا، کوسوفا ہو یا پھر چیچنیا کے مسلمان، سب کا دردآپ کے دل میں تھا۔[2] 2 حیاۃ أوقفت للہ (اللہ کی راہ میں وقف کی گئی زندگی): شہزادہ خالد بن عبد اللہ بن فیصل بن فہد الفیصل (چار صفحات) :علامہ رحمہ اللہ اس صدی کے تمام علماء و فقہاء میں سے سب سے بڑے عالم تھے۔ کئی صدیوں سے اتنا بڑا عالم امّتِ اسلامیہ نے نہیں دیکھا۔ گیارہ سال سے میں سماحۃ والدنا و معلّمنا کی زیارتیں اور ان کے دروس سے استفادہ کر رہا تھا، وہ بقیۃ السلف تھے۔
Flag Counter