میں نے بعض ثقہ حضرات سے سنا ہے کہ وہ کینیا میں تھے کہ ایک بوڑھی عورت کو شیخ ابن باز کے لیے دعائیں کرتے پایا۔ تو پوچھنے پر پتہ چلا کہ مشکل وقت میں شیخ نے اس کی مالی مدد فرمائی تھی۔
وہ دنیا کے کتنے ہی یتیموں،فقیروں،مسکینوں اور کمزوروں کی ضروریاتِ زندگی پوری کیا کرتے تھے۔ دو ملین سے زیادہ لوگ جنازہ پڑھنے کے لیے جمع تھے اور ان سب کے آگے آگے خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد تھے۔[1]
3 کان طوداً شامخاً فی العلم و الزہد و التقویٰ و حب الخیر (وہ علم و تقویٰ زہد و بے نفسی اور حبِ خیر کے ایک بلند و بالا پہاڑ تھے):
اُس وقت کے وزیرِ امورِ اسلامیہ واوقاف اور دعوت و ارشاد ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی جبکہ حال دیوانِ حاکم کے مشیر ہونے کے ساتھ ساتھ رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری لکھتے ہیں :
انھوں نے علماء سلف کی یادیں تازہ کردیں۔ان کے گھر اور دفتر کے دروازے ہر چھوٹے بڑے کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ میں پینتالیس سال سے اپنے عہدِ طالبعلمی سے انھیں جانتا ہوں۔جامعۃ الامام کے مدیر کی حیثیت سے ان سے کبھی کوئی مشورہ طلب کیا تو انھوں نے کبھی کوئی کسر نہ چھوڑی، وزیر ِامورِ اسلامیہ واوقاف اور دعوت وارشاد ہوا تو بھی ان کی شفقت جاری رہی۔ وہ ہمیشہ دعاۃ و مبلغین، مساجد و مدارسِ تحفیظ القرآن اور طلبہ و علماء کے معاملات میں گہری دلچسپی لیا کرتے تھے۔[2]
|