بن عبد اللہ بن حمید (چھ صفحات) :
شیخ رحمہ اللہ فقہ و فتویٰ میں مرجعِ خلائق تھے۔ متقی و زاہد اتنے کہ نوے سالہ زندگی میں سے آخری ستر سال مسلسل ایسے حال میں گزارے کہ آپ کی ذاتی زندگی میں اور مجلس میں کبھی دنیاوی زینت و مال کو کوئی حیثیت نہ دی گئی۔
شیخ رحمہ اللہ کئی اعتبار سے عبقری انسان تھے۔ بے دین اور دین بیزار قسم کی تحریکوں اور اہلِ مغرب کی ثقافتی و فکری یلغار و غیرہ کوئی چیز شیخ کے منہج پر اثر انداز نہ ہوسکی۔[1]
21 الإمام العلامۃ الحبر البحر (حبرِ امت و بحرِ علم و حکمت):
ڈاکٹر صالح بن حمید نے ہی ۱۹؍ محرم ۱۴۱۵ھ کو ڈاکٹر ناصر بن مسفر الزہرانی کی شعری کتاب : بازیۃ الدہر کے لیے چار صفحات کا مقدمہ لکھا جو شیخ رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی شائع ہوگئی جس میں انھوں نے ممدوح کو امام و علامہ، حبرِ امّت اور بحرِ علم و حکمت قرار دیا اور لکھا کہ ان کے ایمانِ عمیق و عقیدہ ٔ راسخہ، خالص کتاب و سنّت پر مبنی علمِ دین اور روحِ اجتہاد و استنباط نے انھیں اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز کردیا ہے۔[2]
22 ابن باز بین الہمۃ و الخشوع (ہمت و خشوع کا پیکر):
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ حمید (ایک صفحہ):
عصرِ حاضر اور نسلِ نو میں ’’ابن باز‘‘ ایک بہت ہی اونچا نام ہے، ان کے القاب و مقام کو بیان کرنے کی بجائے عربوں کا مقولہ ہی کافی ہے:’’وَ ہَلْ یَخْفَٰی الْقَمَرُ‘‘ (چاند بھی بھلا چھپارہ سکتا ہے؟)[3]
|