شیخ نے سلف صالحین کے منہج کے مطابق نشر و اشاعتِ علم میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا حتیٰ کہ واش بیسن پر ہاتھ دھو رہے ہوتے تو بھی سوال و فتویٰ کا سلسلہ جاری رہتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اکیلے اتنا کام کرگئے ہیں کہ سینکڑوں اشخاص سے بھی نہ ہو پائے۔[1]
31 مثال للمدیر الحکیم الحازم (ایک حکیم و حازم اور مثالی مدیر):
شیخ رحمہ اللہ کے شاگرد اور اردن کے معروف عالم ڈاکٹر محمد سلیمان الاشقر (تین صفحات) :
آپ کا گھر، مسجد، دفتر اور درمیانی راستہ سب مدرسہ ہی مدرسہ تھا۔ جامعہ اسلامیہ کے مدیر ہونے کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ساتھیوں سے صلاح و مشورہ(شوریٰ) آپ کا دستور العمل تھا۔
32 ابن باز و موقفان مع الندوي و الغزالی (علامہ ابن باز اور مولانا ندوی و شیخ غزالی) :
معروف قلمکار ڈاکٹر عبد الحلیم عویس (چار صفحات) :
مولانا ابو الحسن علی الندوی کی معیّت میں شیخ سے ملاقات کی تو انھوں نے مولانا کی بڑی عزّت و تعریف کی اور ان کے لیے دعائیں کیں اور جب شیخ محمد الغزالی کے ساتھ گیا تو ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور انھیں انتہائی عزّت سے نوازا۔[2]
|