Maktaba Wahhabi

67 - 208
پھر جب شیخ کی علمی و عملی مصروفیات بڑھ گئیں تو ظہر و عصر والے دو حلقے بند کر دیے گئے۔ آپ تعلیم و تدریس کے معاملے میں اتنے محتاط تھے کہ جس کتاب کا درس دینا ہوتا اسے رات شروح و حواشی کے ساتھ خوب تیار کرتے اور اگر کبھی کسی وفد کے آجانے کی وجہ سے رات اگلے دن کا درس تیار نہیں کرسکے تو پڑھانے کے لیے نہیں بیٹھا کرتے۔ ۱۳۶۷ھ موسمِ حج میں اس وقت کے ولی عہد مگر بعد کے حاکم شاہ سعود رحمہ اللہ سے ملاقات کی اور ان سے الدلم میں ایک مدرسہ کھولنے کا مطالبہ کیا کیونکہ تعلیمی امور کی نگرانی بھی انہی کے سپرد تھی، انھوں نے فوراً اس وقت کے وزیرِ تعلیم شیخ محمد بن مانع رحمہ اللہ کو مدرسہ کھولنے کا حکم دے دیا، لہٰذا ۱۳۶۸ھ میں اس مدرسہ نے ’’المدرسہ السعودیۃ الابتدائیۃ‘‘ کے نام سے کام شروع کر دیا جس کا نام بعد میں ’’مدرسہ ابن عباس رضی اللہ عنہما’‘رکھا گیا۔ اس مدرسہ کے لیے وہی عمارت استعمال کی گئی جو پہلے شیخ کے طلبہ کے لیے مخصوص تھی۔ اس مدرسہ کے مدیر اور مدرسین کی تعیین بھی شیخ کے ہاتھ میں تھی اور وہ خود اس کے تمام امور کی نگرانی بھی کیا کرتے تھے۔ عوام الناس کے لیے جمعہ کی نماز کے بعد آپ اپنے گھر میں بیٹھا کرتے تھے، علیک سلیک کے بعد چند آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی اور شیخ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے تھے۔[1] 3رفاہی خدمات: عہدۂ قضاء اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہی شیخ رحمہ اللہ نے عوامی و رفاہی کاموں میں بھی دلچسپی کے ساتھ شرکت کی مثلاً :
Flag Counter