Maktaba Wahhabi

92 - 208
9 پھر وہاں سے الریاض کی طرف روانہ ہوجاتے۔ آخری سالوں میں الریاض، مکہ مکرمہ اور الطائف کے درمیان آپ کا سفر گورنمنٹ کی طرف سے دیے گئے مخصوص ہوائی جہاز پر ہوا کرتا تھا۔[1] نمازِ تراویح: اس سلسلہ میں ڈاکٹر زہرانی امام و خطیب مسجد ابن باز مکہ المکرمہ کہتے ہیں : ماہِ رمضان میں موصوف خصوصاً عمر کے آخری سالوں میں جب مکہ مکرمہ آجاتے تو کثرتِ اژدحام کی وجہ سے مسجدِ حرام میں نمازِ تراویح نہیں پڑھا کرتے تھے، آپ کا کہنا تھا کہ سارا شہرِ مکہ ہی حرم ہے اور جس حدیث میں وارد ہے کہ مسجدِ حرام میں پڑھی گئی نماز کا ثواب عام مساجد میں پڑھی گئی نمازوں سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے وہ حدیث سارے شہرِ مکہ کو ہی شامل ہے۔ ان کے پاس اس کے قوی اور مسکت دلائل موجود تھے لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ وہ مسجدِ حرام میں اژدہام کرنا چھوڑ دیں جو کہ خشوع و خضوع کو بھی کم کر دینے کا باعث بن رہاہے۔ آپ سنت کے مطابق اکثر آٹھ تراویح اور تین وتر پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھی دس تراویح اور تین وتر کر لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہی سنت ہے۔ اسے ہی اختیار کرنا افضل و اکمل ہے اور اگر کوئی بیس رکعتیں یا کم و بیش پڑھتا تو آپ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خود آپ گیارہ یا تیرہ رکعتوں کو سنت سمجھتے اور صرف اسی کا ہی التزام کرتے حتیٰ کہ عشرۂ اخیرہ میں بھی چار یا چھ رکعتیں نماز عشاء کے بعد اور بقیہ رکعتیں اور وتر آدھی رات کے بعد پڑھا کرتے تھے۔
Flag Counter