Maktaba Wahhabi

100 - 548
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بچوں کے لیے والدین کی دعاؤں کی اہمیت اور دوسرے اہم فوائد کا تذکرہ کیا ہے، جیسے ایک طرف بچوں اور والدین کے لیے آرام و اطمینان اور حفاظت و برکت مہیا کرنا ہے، تو دوسری طرف بحکم الٰہی بچوں سے حسد، شیطان اور زمین کے زہریلے جانوروں کی برائیوں کو دور کرنا ہے، اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوی فرمان کے مطابق دعائیں عبادت کا لب لباب ہوتی ہیں، نیز اس حدیث میں اس احساس کا تذکرہ ہے کہ بندہ حقیقت میں صرف اللہ کا محتاج ہے، اور اسی کی پناہ طلب کرتاہے، اور یہ اسلام کا ایک اہم ترین مقصد ہے۔ ۷۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ حدیثیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رضائے الٰہی تک پہنچانے والے علم کی اصل بنیادیں قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر مشتمل آپ کی حدیثیں ہیں اور یہ حدیثیں نسلاً بعد نسل نقل و روایت ہی سے جانی جاتی ہیں، اہل علم اسماء الرجال کے ضبط اور معرفت کی جانب متوجہ ہوئے، ان کی سوانح اور حالات زندگی کو قلم بند کیا، تاکہ وہ دو اہم بنیادی چیزوں کا پتہ چلا سکیں، اورانھی کی روشنی میں ہر راوی کا مقام و مرتبہ متعین کرسکیں: ۱۔ عادل ہونا: اس سے مراد سیرت اور حالات زندگی کی اچھائی اور سدھار، فرائض کی ادائیگی، حرام کردہ چیزوں سے دوری، مرو ت سے مکمل طور پر آراستہ و پیراستہ ہونا ہے۔ ۲۔ مروی حدیث کا ضبط و اتقان: اس سے مراد حدیث کو یاد کرکے، یا لکھ کر، یا دونوں طریقوں سے مکمل طور پر پورا پورا محفوظ کرلینا ہے۔ یہ مذکورہ حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حدیث نبوی کے تمام نقل کرنے اور روایت کرنے والوں کو شامل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے استثناء کا سبب یہ ہے کہ وہ پہلے حاملین علوم نبوت تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص تربیت یافتہ تھے۔ ائمہ اہل بیت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں روایت کی ہیں، محدثین نے ان حدیثوں کے ان سے اخذ کرنے میں بڑا اہتمام کیاہے، اس لیے کہ ان میں عدالت اور قوت حفظ موجود تھی۔ علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے صاحبزادے حسن و حسین رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابہ میں سے تھے، چنانچہ وہ جرح و تعدیل سے ماورا تھے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثوں کو بقی بن مخلد اندلسی متوفی ۲۷۶ھ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں ذکر کیا ہے، ان کی تعداد ۵۸۶ ہے۔[1]اور امام احمد بن حنبل متوفی ۲۴۱ھ نے انھیں ذکر کیا ہے، مکرر طرق کو شامل کرکے
Flag Counter