Maktaba Wahhabi

153 - 548
و:…اسلام میں جہاد کے بہترین آداب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے قصے سے حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے جہاد کے بہترین آداب کو سیکھا، یہ آداب اس وصیت میں موجود ہیں جو وصیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ کو رخصت کرتے ہوئے فرمائی تھی، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رخصت کرتے ہوئے کمانڈروں اور لشکروں کو وصیت کرتے تھے، اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی لشکروں کو وصیتیں کرتے تھے۔ [1] مذکورہ وصیت سے اسلامی جہاد کے اصل مقصد (اسلام کی جانب دعوت دینا) کا پتہ چلتا ہے، جب قومیں اسلامی لشکر کو دیکھیں گی کہ وہ ان وصیتوں پر سختی سے کاربند ہے تو وہ بہ رضا و رغبت دین اسلام میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔[2] ز:…اسلامی حکومت کی ہیبت میں لشکر اسامہ کا دخل: لشکر اسامہ مال غنیمت لیے فاتحانہ شان سے واپس آیا، اور رومیوں کو اس حد تک مرعوب کیا کہ ہرقل نے حمص میں پادریوں کو جمع کرنے کے بعد ان سے کہا: اسی بات سے میں نے تمھیں ڈرایا تھا، لیکن تم نے میری بات نہ مانی، عرب ایک مہینہ کی مسافت طے کرکے آئے، تم پر حملہ آور ہوئے اور بغیر کوئی زخم کھائے صحیح سالم واپس لوٹ گئے۔ اسی طرح شمال کے عرب قبائل پر اسلامی حکومت کی طاقت و قوت کا رعب و دبدبہ چھا گیا، اس لڑائی کا مسلمانوں کی زندگی اور ان کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی سوچ رکھنے والے عربوں کی زندگی، نیز ان رومیوں کی زندگی میں بڑا اثر رہا، جن کے علاقے ان کی سرحدوں تک پھیلے ہوئے تھے۔[3] اس لشکر نے اپنے کردار سے وہ کارنامہ انجام دیا جو اپنی قوت و طاقت سے انجام نہ دے سکا، چنانچہ مرتدین اقدام سے باز آگئے، جو اکٹھے ہوئے تھے منتشر ہوگئے، جو لوگ مسلمانوں کے خلاف ہوجانے والے تھے وہ اس سے باز آئے، فوجوں اور اسلحہ سے پہلے رعب و دبدبہ نے اپنا کام کیا۔[4] بلاشبہ اس لشکر کو بھیجنا مسلمانوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا، اس لیے کہ اس کی وجہ سے شمال میں مرتدین کا مورچہ نہایت کمزور ہوگیا، نتیجتاً مسلمانوں کے لیے اس فاتح مورچے کو شکست دینا عراق میں دشمنوں کے مورچے کو شکست دینے سے زیادہ آسان ہوگیا۔ ان تمام باتوں سے اس بات کی تاکید اور تائید ہوتی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مشکل کا حل تلاش کرنے والوں
Flag Counter