Maktaba Wahhabi

161 - 548
گھڑتے ہیں تاکہ خلفائے راشدین کے عہد کی تصویر کشی اس طرح کریں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے گھات میں لگا رہتا تھا تاکہ ان کا کام تمام کردیں، ان کے معاملات پردوں کے پیچھے انجام پاتے تھے۔[1] عہد فاروقی کا گہرائی سے جائزہ لینے والا عمر و علی رضی اللہ عنہما کے مابین خصوصی تعلقات اور واضح و خوش گوار تعاون کا اچھی طرح پتہ چلا سکتا ہے، تمام مسائل و مشکلات میں علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے مستشارِ اول تھے، علی رضی اللہ عنہ کی ہر رائے کو عمر رضی اللہ عنہ نے انشراح صدر کے ساتھ نافذ کیا، علی رضی اللہ عنہ آپ کے تمام امور و احوال میں نہایت مخلص خیرخواہ تھے۔[2] بلاشبہ علی و عمر رضی اللہ عنہما کے مابین ان تعلقات کی حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کے ہم عصروں پر تربیتی، علمی اور ثقافتی چھاپ تھی، عمر و علی رضی اللہ عنہما کے مابین مضبوط تعلقات کی بہت ساری دلیلیں ہیں، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: ٭میرے بھائی اور میرے دوست نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ہے: علی رضی اللہ عنہ عدن کا بنا ہوا کپڑا پہنے نکلے تو کہا: ’’میرے بھائی، ساتھی اور گہرے دوست امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ہے۔‘‘ [3] ابوالسفر سے مروی ہے کہتے ہیں: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وہ کپڑا پہنے ہوئے تھے جسے آپ بہ کثرت پہنا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا : اے امیر المومنین کیا آپ اس کپڑے کو زیادہ پہنتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میرے ساتھی اور گہرے دوست عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ہے۔ آپ اللہ کے لیے مخلص رہے تو اللہ نے آپ کی خیرخواہی کی، پھر رو پڑے۔[4] اس طرح کے واقعات کی روشنی میں حسن، علی و اہل بیت اور عمر رضی اللہ عنہم کے مابین دو طرفہ محبت کی حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ ٭شہادت کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کا قول: صحیح بخاری میں وارد ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کا جنازہ چارپائی پر رکھا گیا، تو جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے لوگ گھیرے ہوئے دعائیں کر رہے تھے، ایسی حالت میں ایک شخص نے میرا کندھا پکڑ کر مجھے حیرت میں ڈال دیا، وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا: آپ نے اپنے پیچھے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کے اعمال میرے نزدیک آپ کے اعمال سے زیادہ محبوب ہوں کہ اس طرح کے اعمال
Flag Counter