Maktaba Wahhabi

162 - 548
کرکے میں اللہ سے ملاقات کرنا چاہوں، اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ کردے گا، مجھے یاد آتا ہے کہ میں اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنتا تھا: ((ذَہَبْتُ أَنَا وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَخَلْتُ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ و خَرَجْتُ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ۔)) [1] ’’میں، ابوبکر اور عمر گئے اور میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے اور میں، ابوبکر اورعمر نکلے۔‘‘ ٭عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہرنا ناپسند کرتے تھے اس لیے میں بھی اس کو ناپسند کرتا ہوں: جب جنگ جمل سے علی رضی اللہ عنہ فارغ ہوئے، بصرہ آئے ، عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ جانے لگیں تو ان کے ساتھ کچھ دور چل کر انھیں رخصت کیا، پھر بصرہ سے کوفہ گئے، وہاں آپ بروز سوموار ۱۲/رجب ۳۶ھ کو پہنچے، آپ سے کہا گیا: آپ قصر ابیض میں ٹھہریں، آپ نے فرمایا: نہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہرنا ناپسند کرتے تھے، اس لیے میں بھی اس کو ناپسند کرتا ہوں، چنانچہ آپ مکانوں کے مابین کھلی جگہ میں ٹھہرے، اور جامع اعظم میں دو رکعت نماز پڑھی۔[2] ٭اہل بیت کی عمر رضی اللہ عنہ سے محبت: عمر رضی اللہ عنہ سے اہل بیت کی محبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ کی شخصیت چوں کہ ان کے نزدیک محبوب و ہردل عزیز تھی، وہ لوگ آپ کے بہترین کارناموں، اچھے اخلاق اور اسلام کی نمایاں خدمات کا احترام کرتے تھے، نیز ان مضبوط دوستانہ تعلقات کا پاس و لحاظ رکھتے تھے جو آپ کو اہل بیت اور ان سے سسرالی رشتے سے جوڑتے تھے، انھی وجوہ و اسباب کی بناء پر وہ لوگ اپنے بچوں کا نام آپ کے نام پر رکھتے تھے، چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنے بچے کا نام آپ کے نام پر رکھا، ام حبیب بنت ربیعہ بکریہ کے بطن سے پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کا نام آپ نے عمر رکھا۔[3] کتاب ’’الفصول‘‘ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد کے تذکرے میں وارد ہے: اور تغلبیہ کے بطن سے عمر ہیں، وہ صہباء بنت ربیعہ ہیں، آپ ان قیدیوں میں سے تھیں جو ’’عین التمر‘‘ پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حملے کے نتیجے میں قید ہوئے تھے، مذکور عمر ۸۵ سال زندہ رہے، اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی آدھی وراثت کے حق دار بنے، ایسا اس لیے کہ آپ کے تمام سگے بھائی عبداللہ، جعفر، عثمان آپ سے پہلے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید
Flag Counter