Maktaba Wahhabi

163 - 548
کردیے گئے چنانچہ آپ ان سب کے وارث ہوئے۔[1] عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کے سلسلے میں حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام عمر رکھا۔[2] اسی طرح حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا، حسین رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کے صاحبزادے علی زین العابدین نے بھی اپنے ایک بیٹے کا نام عمر رکھا۔[3] اہل بیت کے یہ ائمہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے تھے اس طرح عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے سینوں میں چھپی محبت و دوستی کا اظہار آپ کی وفات کے کافی عرصہ بعد کرتے تھے، اس طرح اس نام نیز ابوبکر و عثمان ( رضی اللہ عنہم ) جیسے ناموں کا راہ حق پر چلنے والے اہل بیت میں رواج رہا، آج تک اہل سنت و جماعت کا یہی منہج ہے، اسی طرح ہاشمی خاندانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امہات المومنین کے نام ملتے ہیں، چنانچہ ان لوگو ں نے اپنے بچوں اور بچیوں کا نام طلحہ، عبدالرحمن، عائشہ اور ام سلمہ رکھا، آج ہم شیعوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور اہل بیت کے ائمہ کی اقتداء کریں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے تھے، اور اپنے بعض بچوں اور بچیوں کا نام خلفائے راشدین اور امہات المومنین کے ناموں پر رکھتے تھے۔[4] ٭عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا قول: حفص بن قیس سے مروی ہے کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن حسن سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا، تو فرمایا: مسح کرو، کیو ں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مسح کیا، کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ مسح کرتے ہیں ؟ تو فرمایا: خاموش رہو، میں تم کو عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتا رہا ہوں، اور تم مجھ سے میری رائے پوچھ رہے ہو، عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اور روئے زمین کے اور تمام لوگوں سے بہتر تھے، تو میں نے کہا: اے ابومحمد کچھ لوگو ں کا خیال ہے کہ آپ یہ بطور تقیہ کہہ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھ سے (جب کہ ہم لوگ قبر نبوی اور منبر کے درمیان تھے)فرمایا: ’’اے اللہ میرا یہی قول خلوت میں بھی ہے اور جلوت میں بھی، میرے بعد میرے خلاف کسی کی بات نہ سنی جائے، پھر فرمایا: کس کا یہ زعم باطل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مظلوم و مقہور تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter