Maktaba Wahhabi

164 - 548
آپ کو ایک بات کا حکم دیا اور آپ اس حکم کو بجا نہیں لائے، علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کے لیے یہ زعم باطل کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک بات کا حکم دیا اور آپ اس کو بجا نہیں لائے۔‘‘[1] ثالثاً :… عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد میں شروع ہی سے عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کا اسلامی دعوت سے گہرا ربط رہا، حیات نبوی کی ہر چھوٹی بڑی بات سے آگاہ تھے، شیخین کے دور میں خلافت کے تمام احوال سے آپ کو آگاہی تھی، دوسرے لفظوں میں موجودہ اصطلاح کے مطابق آپ اسلامی حکومت کی تاسیس میں برابر شریک رہے۔ عثمان بن عفان اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت جس منہج پر ہوئی وہ منجانب اللہ نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید ہے، اور دوسری چیز جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر کافی مؤثر رہی اور آپ کی منجانب اللہ عطا کردہ صلاحیتوں کو جلا بخشی، آپ کی خوابیدہ طاقتوں کو ابھارا، آپ کو مہذب بنایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور نبوی مدرسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی رہی، چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد مکہ میں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہتے، آپ نبوی مدرسہ میں بشریت کے ہادی و رہنما سے مختلف علوم و معارف سیکھنے کے حریص تھے۔ جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کا سبب آپ کی سستی یا راہِ فرار اختیار کرنا نہیں تھا جیسا کہ آپ پر تنقید کرنے والے بعض نفس پرستو ں کا زعم باطل ہے، آپ کا ارادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا نہیں تھا، اس لیے کہ جنگ بدر میں شرکت کی بنا پر اہل بدر کو جو فضیلت حاصل ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع ہے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغرض شرکت نکلے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سخت بیمار بیٹی ’’رقیہ‘‘ کی دیکھ ریکھ کے لیے آپ کو واپس کردیا وہ اسی بیماری میں اللہ کو پیاری ہوگئیں، چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری ہی کے باعث شریک نہ ہوسکے، اور اسی اطاعت ہی کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا حصہ اور اجر و ثواب مقرر کیا اور مال غنیمت،فضیلت اور اجر و ثواب میں آپ کو صحابہ کرام کے ساتھ شریک کیا۔ طبری نے صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کی بہت ساری خصوصیتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں: ۱۔ اس بات کی خصوصیت کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیعت کر رہے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ غائب تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کے قائم مقام قرار دیا گیا۔
Flag Counter