Maktaba Wahhabi

171 - 548
مسلمانوں کے معاملے کو اچھی طرح حل کیا، اور ایک نئے شورائی نظام کی بنیاد ڈالی، اس میں کوئی شک نہیں کہ شوریٰ کی اصل قرآن اور قولی و فعلی حدیثوں سے ثابت ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عمل رہا، اس لیے عمر رضی اللہ عنہ شوریٰ کی اصل کو نئے سرے سے وجود میں لانے والے نہیں تھے، آپ کا نیا کام خلیفہ کے انتخاب کا طریقۂ کار متعین کرنا اور شوریٰ کے لیے محدود عدد کی مجلس تشکیل دینا ہے، اس کام کو نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا اور نہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی بلکہ اسے سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے انجام دیا، اور یہ بہت ہی اچھا کام تھا، اس لیے کہ اس وقت صحابہ کے حالات کے موافق یہ سب سے افضل طریقِ کار تھا۔[1] امورِ خلافت کے تفقہ میں یہ خوشگوار ترقی، سیاسی بصیرت اور حالات کے مطابق علمی اجتہادات، ان تمام چیزوں کا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی تعلیم و تربیت، ان کی وسعتِ فہمی اور بالغ نظری میں اہم کردار رہا، اسی بناء پر آپ نے بھی ایک اسلوب اختیار کیا، اور اختلاف و انتشار کے بعد امت کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نادر اور عبقری شخصیتیں بے بنیاد وجود میں نہیں آتیں۔ آپ کی شخصیت اسلامی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے میں سابقہ لوگوں کی کوششوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ اور وسیع تجربات کا نتیجہ تھی۔ ۲۔مجلس شوریٰ کی کارروائیوں کو چلانے میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا منہج: عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کے سلسلے میں مجلس شوریٰ کی کارروائیوں کو چلانے میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے منہج کو حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بہت قریب سے دیکھا، یہ منہج درج ذیل نکات پر مشتمل تھا: ا:…مجلس شوریٰ کا مشاورت کے لیے اجتماع: عمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے فوراً بعد مجلس شوریٰ اور حکومت کی مجلس اعلیٰ کے ممبران ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہوئے، دوسرے قول کے مطابق ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کے گھر میں جمع ہوئے تاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کے سب سے اہم مسئلے میں کوئی فیصلہ لے سکیں، لوگو ں نے گفتگو کی، تفصیل سے اپنی آراء کا اظہار کیا، اور توفیق الٰہی سے ایسے فیصلے پر پہنچے جسے عام و خاص تمام مسلمانوں نے پسند کیا۔[2] ب:…عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ دوسرے کے حق میں دستبردار ہونے کی دعوت دیتے ہیں: جب اہل شوریٰ جمع ہوئے تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ لوگ اپنا معاملہ اپنے میں سے تین کے حوالے کر دیں، چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنا معاملہ علی ( رضی اللہ عنہ ) کے حوالے کرتا ہوں، طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
Flag Counter