Maktaba Wahhabi

179 - 548
خطاب رضی اللہ عنہ کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آپ کی خلافت کی صحت پر اجماع ہے، اس سلسلے میں کسی کو بھی اختلاف یا اعتراض نہیں تھا، سب نے اس کو تسلیم کیا تھا، ابوالحسن اشعری کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کے متعین کردہ اصحاب شوریٰ کے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے سے ان کی خلافت ثابت ہوجاتی ہے، لوگوں نے آپ کو منتخب کیا، آپ کی خلافت کو پسند کیا، آپ کی انصاف پسندی اور فضیلت پر سب نے اتفاق کیا۔[1] خلافت کی ترتیب کے بارے میں اہل سنت و اہل حدیث کے عقیدے کو بیان کرتے ہوئے عثمان صابونی کہتے ہیں: ’’وہ لوگ سب سے پہلے خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قائل ہیں، پھر خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے، پھر خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے، جس پر تمام اہل شوریٰ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اتفاق کیا اور اسے پسند کیا تاآنکہ آپ کو خلیفہ بنا دیا گیا۔‘‘[2] ۴۔فتح افریقہ کے لیے جیشِ عبادلہ میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی شرکت: فتوحات کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کا پرعزم و پختہ منصوبہ درج ذیل چیزوں پر مشتمل تھا: ۱۔ سرکش اہل فارس اور رومیوں کو زیر کرنا۔ ۲۔ ان علاقوں میں اسلامی حکومت کا اعادہ۔ ۳۔ ان علاقوں کے ماوراء علاقوں کو فتح کرنے کے لیے برابر جہاد کرتے رہنا تاکہ انھیں کمک نہ پہنچ سکے۔ ۴۔ مستقل فوجی چھاؤنیاں تیار کرنا جن میں اسلامی علاقو ں کی حفاظت کے لیے اسلامی لشکر تیار رہے۔ ۵۔ اسلامی لشکر کی ضرورت کے پیشِ نظر بحری فوج تیار کرنا۔ عہد عثمانی میں اسلامی فوجی چھاؤنیاں بڑے صوبوں کی راجدھانیاں تھیں، عراق کی فوجی چھاؤنی کوفہ اور بصرہ تھی، شام کی فوجی چھاؤنی دمشق تھی، مصر کی فوجی چھاؤنی فسطاط تھی۔ ان فوجی چھاؤنیوں کی ذمہ داری اسلامی حکومت کی حفاظت، فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنا، اسلام کی نشر و اشاعت تھیں، عہد عثمانی میں فتوحات کے مشہور سپہ سالاروں میں سے احنف بن قیس، سلیمان بن ربیعہ، عبدالرحمن بن ربیعہ اور حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان فتوحات سے مسلمانوں کو جو اسباق حاصل ہوئے ان میں سے چند یہ ہیں: مدد اور غلبہ عطا کرنے میں مومنوں سے اللہ کا کیا ہوا وعدہ سچ ثابت ہونا، جنگ و سیاست کی تدبیروں کا بتدریج ترقی کرنا، سمندری سفر اور سمندری جنگ کا وجود میں آنا، دشمنوں کی سراغ رسانی کرکے معلومات اکٹھا کرنا، دشمنوں کے مقابلے کے لیے
Flag Counter