Maktaba Wahhabi

195 - 548
سے ابھی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی جو میں دعوت دے رہا ہوں وہ جنگ اور اختلاف وانتشار کی برائی سے بہتر ہے۔[1] امیر المومنین کی رائے تھی کہ مصلحت کا تقاضا ہے کہ قصاص کو مؤخر کردیا جائے چھوڑا نہ جائے، اس لیے آپ نے اسے مؤخر کردیا، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ انتظار کر رہے تھے کہ امن بحال ہوجائے، لوگ متحد ہوجائیں، آپ کے وارثین کی جانب سے قصاص کا مطالبہ کیا جائے، قصاص کے طلب کرنے والے اور قصاص جن سے مطلوب تھا دونوں فریق حاضر ہوں، دعویٰ اور جوابِ دعویٰ پیش ہو، دلیل پیش کی جائے اور عدالت میں فیصلہ کیا جائے۔[2] امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قصاص جب فتنہ اور اختلاف و انتشار کا باعث بنے تو امام کو اسے موخر کرنا جائز ہے۔[3] رہی امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی موجودگی کی بات جو لوگوں میں پھیلائی گئی تو امام طحاوی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے ایسے سرکش خوارج تھے جن کی تعیین مشکل تھی اور ایسے بھی تھے جن کا قبیلہ ان کی مدد کر رہا تھا، اور ایسے بھی تھے کہ جن کے کیے پر کوئی دلیل قائم نہ ہوسکی تھی، اور ایسے بھی تھے جو اپنے دلی نفاق کو ظاہر نہ کرسکے تھے۔‘‘ [4] بہرحال ان کے سلسلے میں آپ محتاط اور ان کے فعل سے براء ت کا اظہار کرنے والے تھے، ان سے مستغنی ہونا بلکہ امکانی صورت میں ان سے قصاص لینا چاہتے تھے۔ اپنی کتاب ’’أسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المؤمنین علی بن أبي طالب‘‘ میں میں نے اسے بالتفصیل ذکر کیا ہے۔ ۳۔اہلِ کوفہ کو لشکر کشی پر آمادہ کرنے میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا مؤثر ہونا: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بہ حیثیت خلیفہ اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے تھے، آپ میں پختہ عزم و حوصلہ تھا، کوئی آپ کو آپ کے عزم سے پھیر نہیں سکتا تھا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے مقام ’’ربذہ‘‘ سے اہل کوفہ کو کوچ کرنے کا پیغام بھیجا، اپنی مدد کے لیے انھیں بلایا، آپ کے دونوں قاصد محمد بن ابوبکر صدیق اور محمد بن جعفر تھے، لیکن یہ دونوں اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوسکے اس لیے کہ والیٔ کوفہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انھیں کوچ کرنے اور بحالتِ فتنہ جنگ کرنے سے روک دیا، اور فتنے سے الگ رہنے سے متعلق آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیثیں سن رکھی تھیں انھیں سنا دیں۔[5]
Flag Counter