Maktaba Wahhabi

197 - 548
مال غنیمت حاصل کیے، میں نے تمھیں دعوت دی ہے کہ تم ہمارے ساتھ اہل بصرہ کو لے کر آؤ، اگر مخالفین لوٹ گئے تو ہم یہی چاہتے ہیں، اگر نہیں لوٹتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں گے اور ان سے الگ رہیں گے یہاں تک کہ وہ ہم پر ظلم کرنے لگیں، ہم ان شاء اللہ اصلاح کو فساد پر ترجیح دیں گے، اصل طاقت و قوت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘[1] ۴۔صلح کی کوششیں: علی رضی اللہ عنہ اس بات کے خواہاں تھے کہ یہ اختلاف و فتنہ پر امن طریقے سے ختم ہوجائے، مسلمانوں کو بھرپور مسلح ٹکراؤ اور جنگ کی برائی سے بچا لیا جائے، یہی حال طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کا تھا، صلح کی کوششوں میں بہت سارے صحابہ اور کبار تابعین شریک رہے، سب سے مشہور کوشش قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی تھی، انھوں نے طلحہ، زبیر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم سے گفتگو کی، وہ سب ان کی رائے سے متاثر ہوئے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے قاتلینِ عثمان کے معاملے میں قعقاع رضی اللہ عنہ کی رائے پوچھی، توانھوں نے کہا: اس معاملے کا علاج پرسکون ہونے میں ہے، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے میں توقف ضروری ہے، اگر آپ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتے اور ان کے ساتھ متفق ہوجاتے ہیں تو یہ بھلائی کی علامت اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے پر قادر ہونے کی نشانی ہے، اور اگر نہیں مانتے اور جنگ پر اصرار کرتے ہیں تو یہ برائی کی اور اس ملک کے ختم ہوجانے کی علامت ہے، عافیت کو ترجیح دیں آپ لوگوں کو عافیت مل جائے گی، پہلے ہی کی طرح آپ لوگ اچھائیوں کا منبع بنیں، ہمیں پریشانی میں نہ ڈالیں کہ آپ بھی اسی میں پڑ جائیں اور نتیجتاً اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ لوگوں کو ہلاک کردے، اللہ کی قسم میں آپ لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں اور مجھے خو ف ہے کہ یہ بات پوری نہ ہوسکے اور اللہ تعالیٰ اس امت کے اہم لوگوں کو ہلاک کردے جس کے اسباب کم ہوگئے ہیں، جو بہت بڑی آفت میں مبتلا ہوگئی ہے، یہ ایک آدمی کے دوسرے آدمی کو قتل کرنے یا ایک جماعت کا ایک آدمی کو قتل کرنے یا ایک قبیلے کا دوسرے قبیلے کو قتل کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ لوگ قعقاع رضی اللہ عنہ کی مخلصانہ سچی اور مطمئن کردینے والی گفتگو پر مطمئن ہوگئے اور ان کی صلح کی دعوت کو قبول کرلیا، اور کہا: تم نے اچھی اور درست بات کہی ہے، آپ جایے اگر علی رضی اللہ عنہ آتے ہیں اور ان کی بھی یہی رائے ہوتی ہے تو یہ معاملہ ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا،قعقاع رضی اللہ عنہ مقام ’’ذی قار‘‘ کی جانب علی رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی مہم میں کامیاب ہو کر لوٹے،علی رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ جو گفتگو ہوئی اس سے آگاہ کیا، آپ نے اسے پسند کیا، قریب تھا کہ سب کی پسند یا عدم پسند کا خیال کیے بغیر لوگ صلح کرلیتے۔[2]
Flag Counter