Maktaba Wahhabi

202 - 548
۶۔جنگ جمل میں مقتولین کی تعداد: اس تباہ کن لڑائی میں بہت سارے لوگ قتل ہوئے، ان کی تعداد بیان کرنے میں روایتیں مختلف ہیں، مسعودی نے ذکر کیا کہ اس اختلاف کا سبب راویوں کا میلان ہے۔[1] خلیفہ بن خیاط نے جنگ جمل کے مقتولین کے ناموں کی فہرست ذکر کی ہے تو وہ تقریباً سو تھے، اگر ہم مان لیں کہ ان کی تعداد سو کے بجائے دو سو تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ جمل کے مقتولین کی تعداد دو سو سے متجاوز نہیں ہے اور یہی تعداد ڈاکٹر خالد بن محمد الغیث کے نزدیک ان کے رسالہ ’’استشہاد عثمان و وقعۃ الجمل فی مرویات سیف بن عمر فی تاریخ الطبری دراسۃ نقدیۃ‘‘[2] میں راجح قرار پائی ہے۔ ابومخنف کی اس روایت میں کہ مقتولین کی تعداد بیس ہزار تک پہنچتی ہے،[3] مبالغہ ہے، یہ ذکر کرکے کہ یہ بیس ہزار صرف بصرہ کے تھے، اس جھوٹے کی سوچ تھی کہ اس نے اچھا کیا ہے حالاں کہ اس نے برا کیا ہے۔[4] سیف بن عمر ذکر کرتا ہے کہ ان کی تعداد دس ہزار تھی آدھے اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں سے اور آدھے اصحاب عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے تھے۔ ایک دوسری روایت میں کہتا ہے: اور کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد پندرہ ہزار تھی، پانچ ہزار اہل کوفہ سے تھے، اور دس ہزار اہل بصرہ سے تھے، ان میں سے آدھے جنگ کے پہلے مرحلے میں قتل کیے گئے اور آدھے دوسرے مرحلے میں۔[5] دونوں روایتیں منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں اور ان میں مبالغہ بھی ہے۔ عمر بن شبہ ذکر کرتے ہیں کہ مقتولین کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ تھی مگر یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔[6] یعقوبی نے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا اس لیے کہ اس نے مقتولین کی تعداد تیس ہزار سے زائد بتلائی ہے۔[7] ان اعداد میں بہت زیادہ مبالغہ ہے اور میں نے اپنی کتاب ’’أسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المومنین علی بن أبي طالب‘‘ میں مبالغہ کے اسباب کو ذکر کیا ہے۔ ۷۔جنگ کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے اعلان: جنگ جیسے ہی رکنے لگی علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے اعلان کرنے والے نے اعلان کردیا کہ کسی زخمی کا کام تمام نہ کریں، کسی پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کا پیچھا نہ کریں، کسی گھر میں نہ داخل ہوں، جو ہتھیار ڈال دے وہ مامون
Flag Counter