Maktaba Wahhabi

203 - 548
ہوگا، جو اپنا دروازہ بند کرلے وہ مامون ہوگا، فوج کو مال غنیمت میں وہی ہتھیار اور گھوڑے ملیں گے جو میدان جنگ میں لائے گئے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ امیر المومنین کی جانب سے اعلان کرنے والا اہل بصرہ میں سے ان لوگوں کے درمیان جو آپ سے برسرِ پیکار تھے اعلان کیا کہ ان میں سے جو بھی اپنا سامان آپ کے کسی فوجی کے پاس پائے تو وہ اسے لے لے۔[1] ۸۔آپ کا مقتولین کا معائنہ کرنا اور ان کے لیے دعائے رحمت کرنا: معرکہ ختم ہونے پر امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ چند صحابہ کے ساتھ مقتولین کا معائنہ کرنے نکلے، محمد بن طلحہ سجاد کو دیکھ کر کہا: ’’إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون‘‘ اللہ کی قسم وہ نیک جوان تھا، پھر پریشان اور غمگین حالت میں بیٹھ گئے، مقتولین کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کی، ان میں سے کئی لوگوں کی بھلائیوں اور نیکیوں کا تذکرہ کرکے ان کی تعریف کی۔[2] ۹۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آپ کا متأثر ہونا: حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مقتولین کے درمیان گھوم رہے تھے، تو طلحہ رضی اللہ عنہ کو مقتول پایا، ان کے چہرے سے گرد و غبار صاف کرنے لگے[3] اور فرمایا: اے ابومحمد میرے لیے یہ انتہائی درد ناک بات ہے کہ میں تمھیں اس وادی میں پڑا ہوا پاؤں، پھر فرمایا: میں اپنی ذرا ذرا سی باتوں کے بارے میں اللہ ہی سے فریاد کرتا ہوں، میں تمنا کرتا ہوں کہ کاش میں بیس سال پہلے دنیا سے رخصت ہوگیا ہوتا۔[4] ۱۰۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کے بارے میں آپ کی رائے: جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو عمرو بن جرموز نے دھوکے سے قتل کردیا تو ان کا سر تن سے جدا کردیا اور اسے لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، اس کو توقع تھی کہ یہ اس کا کارنامہ سمجھا جائے گا اور علی رضی اللہ عنہ کے یہاں وہ مرتبہ پائے گا، لیکن جب اس شخص نے اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن صفیہ (زبیر رضی اللہ عنہ ) کے قاتل کو جہنم کی خوش خبری سنادو، پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((لکل نبی حواری و حواریّيْ الزبیر)) [5]
Flag Counter