Maktaba Wahhabi

251 - 548
کے لیے بیعت کی گئی، اور آپ چھ مہینے تک خلیفہ برحق رہے جو ان تیس سالوں کا تکملہ ہے جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے، تو یہ مدت مدتِ خلافت ہے، اس کے بعد ملوکیت ہے۔[1] ۶۔ ابن حجر ہیثمی کا قول ہے: وہ اپنے نانا کی تصریح کے مطابق آخری خلیفۂ راشد ہیں، اپنے والد کے قتل کے بعد اہل کوفہ کی بیعت سے خلیفہ ہوئے، آپ چھ مہینے چند دن تک اس پیشین گوئی کو سچ ثابت کرتے ہوئے خلیفۂ برحق، سچے اور عدل پسند حاکم رہے، جس میں آپ کے نانا رسولِ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ۔‘‘ یہ چھ مہینے ان تیس سالوں کا تکملہ ہیں، اس طرح آپ کی خلافت پر نص موجود ہے اور اس پر اجماع ہے، اس لیے اس کے برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔[2] اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی خلافت برحق ہے، اور اس خلافت علیٰ منہاج النبوۃکی تکمیل ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اس کی مدت تیس سال ہوگی۔[3] رابعاً:… والد کے قتل کے بعد کے وہ خطبے جن کی نسبت حسن رضی اللہ عنہ کی جانب صحیح نہیں ہے: اس مبحث کو یہاں اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ باطل بتاکر لوگوں کو اس سے روکا جائے، جیسا کہ شاعر کہتا ہے: عرفت الشر لا للشر لکن لتوقیہ و من لا یعرف الشر من الخیر یقع فیہ ’’میں نے برائی کی معرفت صرف برائی سے بچنے کے لیے حاصل کی ہے، جو برائی کو بھلائی سے الگ نہیں کرسکتا اس کا مرتکب ہوجاتا ہے۔‘‘ شیعہ اثنا عشریہ نے بہت سارے خطبوں کو گھڑ کر غلط طریقے سے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی جانب منسوب کردیا ہے، چندنمونے پیش خدمت ہیں: ((أیہا الناس من عرفنی فقد عرفنی، و من لم یعرفنی فأنا الحسن بن علی۔ أنا البشیر، أنا ابن النذیر، أنا ابن الداعی إلی اللّٰہ عزوجل بإذنہ، أنا ابن السراج المنیر، و أنا من أہل البیت الذین أذہب اللّٰہ عنہم الرجس و طہرہم تطہیرا، والذین افترض اللّٰہ مودتہم فی کتابہ إذ یقول (وَمَن یَقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہُ فِیْہَا حُسْناً) (الشوری:۲۳) فاقتراف الحسنۃ مودتنا أہل
Flag Counter