Maktaba Wahhabi

273 - 548
مشتمل کتابیں تصنیف کی گئیں، اس لیے ہر نو عمر پر عربی زبان سیکھنا لازمی ہے، ورنہ وہ دین سے جاہل و علم میں ناقص رہے گا، ساتھ ہی ساتھ قرآن مجید فصاحت و بلاغت و بیان اور سننے میں مٹھاس سے بھرپور ہے۔[1] اسی طرح عربی زبان سیکھنے کے سلسلے میں حسن رضی اللہ عنہ کی تاکید یہ بتلاتی ہے کہ آپ عربی زبان کے ماہر تھے، چنانچہ آپ کا شمار فصحائے عرب میں ہوتا تھا۔ عمرو بن العلاء کا قول ہے: ((ما رأیت أفصح من الحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما۔)) [2] ’’میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ فصیح شخص کو نہیں دیکھا۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ کے بہت سارے ہونہار شاگرد تھے، جن میں سے آپ کے بیٹے حسن، مسیب بن نجبہ، سوید بن غفلہ، علاء بن عبدالرحمن، شعبی، ہبیرہ بن مریم، اصبغ بن نباتہ، جابر بن خالد، ابوالحوراء، عیسیٰ بن مامون بن زرارہ، ابویحییٰ عمیر بن سعید نخعی، ابومریم قیس ثقفی، طحرب عجلی، محمد بن اسحاق کے والد اسحاق بن یسار ، سفیان بن لیل اور عمر بن قیس تھے۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہونے کے وقت دنیاوی و ذاتی مصلحت پر امت کے اتحاد اور خون کی حفاظت کو مقدم رکھنے سے متعلق شریعت کے مقاصد کی گہری معرفت اور مصالح و مفاسد کے جاننے میں آپ کی باریک بینی اور علمی تبحر کا پتہ چلتا ہے۔ ۲۔آپ کی عبادت: حسن بن علی رضی اللہ عنہ کافی عبادت گزار تھے، عبادت کے وسیع مفہوم کو آپ نے اپنی زندگی میں برتا، عبادت کا شوق آپ کو خاندانِ نبوت سے بچپن ہی میں حاصل ہوچکا تھا، آپ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے جو اپنے والد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خادم طلب کرنے آتی ہیں تو آپ انھیں اس سے بہتر چیز تسبیح و تحمید اور تہلیل و تکبیر کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اور ان کے شوہر سے رات میں جب کہ وہ بستر پر ہوتے کہتے: اٹھو نماز پڑھو، چنانچہ آپ نے زہد و عبادت، ورع و تقویٰ اور حلم و صبر سے معمور خانوادے میں آنکھیں کھولیں، یہ بنیادی باتیں، مفاہیم اور اعلیٰ قدریں آپ کی زندگی میں اس قدر رچ بس گئیں کہ آپ ان میں ضرب المثل ہوگئے، آپ کے معاصر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر نیک لوگ اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ٭ آپ شعوری طور پر عبادت گزار تھے، یقین کے ساتھ آپ اللہ والے تھے، دنیا اور اس کے مشاغل سے پوری رضا مندی اور اطمینان کے ساتھ بے رغبت تھے، اسی لیے جب آپ وضو کرکے فارغ ہوتے توآپ
Flag Counter