Maktaba Wahhabi

312 - 548
۱۔ لوگوں پر اپنی برتری کی چاہت اور اس کا اظہار۔ ۲۔ مجلسوں میں پیش پیش رہنا۔ ۳۔ اکڑ کر چلنا۔ ۴۔ اپنی بات غلط ہی کیوں نہ ہو اس کو رد نہ ہونے دینا۔ ۵۔ کمزور اور ضعیف مسلمانوں کا مذاق اڑانا۔ ۶۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنی تعریف خود کرنا۔ ۷۔ آباء و اجداد پر فخر کرنا، نسب و خاندان پر نازاں ہونا۔ ۸۔ مال، علم، عمل، عبادت، خوب صورتی، طاقت، قبیلے اور دوست و احباب کی کثرت وغیرہ پر تکبر کرنا۔[1] اس بیماری سے بچاؤ اور اس کا علاج: ٭ مسلمان اپنے آپ سے پوچھتا رہے، اپنے دل کی نگرانی کرتا رہے کہ وہ متکبر تو نہیں ہوگیا ہے؟ وہ مائل بہ تکبر تو نہیں ہے، اگر وہ اپنے آپ کو تواضع وانکساری کی جانب مائل اور تکبر اور اہل تکبر کو نہ پسند کرنے والا پائے تو اپنے اوپر اللہ کے انعام اور فضل کا شکریہ ادا کرے، ورنہ اپنے نفس کو ملامت کرے، اس کا محاسبہ کرے، اور بطور سزا اس سے بکثرت ذکر و عبادت، صوم و اطاعت کرائے، اسے بہت سارے مباح آرام و آسائش، لہو و لعب اور مرغوبات سے محروم رکھے تاکہ نفس سدھر جائے، ضلالت و گمراہی سے باز آجائے اور اپنی بیماری سے شفا یاب ہوجائے۔ ٭ مسلمان اس بیماری کی حقیقت کو سامنے رکھے، دنیا و آخرت میں اس کے نتائج، شریعت میں اس کے حکم، دنیا و آخرت میں اس پر سزا، قرآن و سنت، امر واقعی، صالحین کے واقعات اور ان کی زندگیوں کی روشنی میں اس کے انجام سے غافل نہ رہے۔ قرآن کریم صراحت سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ تکبر شیطان کی صفت ہے، ابلیس لعین کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ) (البقرۃ: ۳۴) ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا۔‘‘
Flag Counter