Maktaba Wahhabi

346 - 548
بلاشبہ مومن اپنی نیک طبیعت کے باعث لوگوں کے لیے مختلف قسم کے عذر تلاش کرتا رہتا ہے، اور منافق اپنی بری طبیعت کے باعث لوگوں کے عیوب تلاش کرتا رہتا ہے۔‘‘[1] ۵۔حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((وَاللّٰہِ مَا تَشَاوَرَ قَوْمٌ قَطُّ إِلَّا ہَدَاہُمُ اللّٰہُ لِأَفْضَلَ مَا یَحْضُرُہُمْ)) [2] ’’اللہ کی قسم جب بھی کوئی قوم باہم مشورہ کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان کی موجودہ رائے سے بہتر رائے کی جانب ان کی رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ لوگو ں کو اپنے تمام معاملات میں باہمی مشورے کی وصیت کر رہے ہیں اور اس پر آمادہ کر رہے ہیں، قرونِ اولیٰ کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے شورائیت کا طریقہ سیکھا اور اس کو برتا، خود حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت سے متعلق اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ ، چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور اپنے دوسرے قائدین سے مشورہ کیا جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ شورائیت شریعت و احکام کے بنیادی اصول و ضوابط میں سے ہے، جو حاکم بھی باعمل علما سے مشورہ نہیں کرتا اس کو اس کے منصب سے ہٹا دینا بالاتفاق واجب ہے۔[3] جصاص حنفی اپنی تفسیر ’’احکام القرآن‘‘ میں(أَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ)پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اقامتِ صلاۃ اور ایمان کے ساتھ شورائیت کا ذکر کیا جانا اس کے عظیم المرتبت ہونے کا پتہ دیتا ہے، اور یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم اس کے مامور ہیں۔‘‘[4] علامہ طاہر بن عاشور کہتے ہیں: ’’جصاص کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ شورائیت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک واجب ہے۔‘‘[5] امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ہمارے اصحاب کا اختلاف ہے کہ ہماری طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں شورائیت واجب ہے یا سنت، ان کے نزدیک راجح واجب ہونا ہے اور یہی مختار قول ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا امر صادر کر رہا ہے: (وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ) (آل عمران:۱۵۹)
Flag Counter