Maktaba Wahhabi

378 - 548
اس واقعے میں بہت ساری عبرت انگیز اور سبق آموز باتیں ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں: أ: دعاۃ کو صبر کی ضرورت، اس لیے کہ وہ بہت ساری مشقتوں سے گزرتے ہیں۔ ب: بچوں کو سخاوت، انسانیت اور مکارم اخلاق کی تربیت دینے کی اہمیت، سعد رضی اللہ عنہ کی جانب سے اپنے بیٹے قیس رضی اللہ عنہ کی تربیت میں یہ چیز نمایاں ہے، چنانچہ انھوں نے ان کو بہت سارا مال اس لیے دے دیا کہ انسانیت اور سخاوت سے متعلق ان کی ہمت افزائی کریں۔ ج: نیک بندے کے پاس پاک و صاف مال ہونے کی اہمیت، اگر سعد رضی اللہ عنہ کے پاس زیادہ مال نہ ہوتا تو قیس رضی اللہ عنہ بھوک کے بحران کو حل کرنے میں حصہ نہیں بٹا سکتے تھے۔ د: قیس بن سعد رضی اللہ عنہ یہ دعا کیا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ ہَبْ لِیْ حَمْدًا وَ مَجْدًا لَا مَجْدَ إِلَّا بِفَعَالٍ، وَ لَا فَعَالَ إِلَّا بِمَالٍ، اَللّٰہُمَّ لَا یُصْلِحُنِیَ الْقَلِیْلُ۔)) [1] ’’اے اللہ! میں تجھ سے قابل تعریف کام اورعزت و شرافت کا طالب ہوں، عزت و شرافت بغیر اچھے کاموں کے ناممکن ہے، اور اچھے کام بغیر مال کے ناممکن ہیں، اے اللہ میرے لیے کم مال مناسب نہیں۔‘‘ ۲۔فتح مکہ کے دن: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر احرام کالی پگڑی پہنے مکہ میں داخل ہوئے۔[2] اللہ نے چوں کہ آپ کو فتح سے سرفراز کیا تھا، اس لیے اللہ کے لیے تواضع کا اظہار کرتے ہوئے آپ اپنے سر کو جھکائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ کی ٹھوڑی کجاوے کے درمیانی حصے کو چھو رہی تھی، آپ سورۂ فتح کی تلاوت کر تے ہوئے داخل ہوئے۔[3] آپ کو نصرت و تائید، گناہوں کی بخشش اور فتح کی نعمتوں کا احساس ہو رہا تھا۔[4]مکہ میں(جو جزیرۃ العرب کا قلب اور اس کا روحانی و سیاسی مرکز ہے) جب آپ فاتحانہ شان سے داخل ہوئے تو وہاں عدل و مساوات، تواضع و انکساری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے قریش اور بنوہاشم کے کسی فرد کے بجائے اپنے غلام زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا۔ یہ واقعہ جمعہ ۲۰/رمضان ۸ھ کا ہے۔[5]
Flag Counter