Maktaba Wahhabi

397 - 548
عقلمند قرار دیا جاتا ہے، معاویہ بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، قیس بن سعد، مغیرہ بن شعبہ اور مہاجرین میں عبداللہ بن بدیل خزاعی رضی اللہ عنہم ، مغیرہ رضی اللہ عنہ سرزمین طائف میں الگ تھلگ تھے تاآنکہ دونوں حکم نے فیصلہ کیا اور سب مقام ’’اذرح‘‘ میں جمع ہوگئے۔‘‘[1] قیس رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((لَولَا الْاِسْلَامُ لَمَکَرْتُ مَکْرًا لَا تُطِیْقُہُ الْعَرَبُ۔))[2] ’’اگر اسلام مانع نہ ہوتا تو میں ایسی چال چلتا جس کا عربوں کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔‘‘ ۱۱۔ہم خواہش کیا کرتے تھے کہ قیس رضی اللہ عنہ کے لیے داڑھی اپنے پیسوں سے خرید لیں: زبیر بن بکار نے ذکر کیا ہے کہ قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور قاضی شریح رحمہ اللہ کے چہروں پر داڑھی کا کوئی بال نہیں تھا، زبیر بن بکار کے علاوہ دوسروں نے ذکر کیا ہے کہ انصار کہا کرتے تھے: ’’ہم خواہش کیا کرتے تھے کہ قیس رضی اللہ عنہ کے لیے داڑھی اپنے پیسوں سے خرید لیں، اس کے باوجود آپ خوب صورت تھے۔‘‘[3] ۱۲۔قیس رضی اللہ عنہ کا قول: ’’تمھاری رائے میں عیادت کرنے والوں کی تعداد کم کیوں ہے۔‘‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے کوئی جائداد نوے ہزار میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیچ دی، اہل مدینہ میں آپ نے منادی کرا دی: جسے قرض چاہیے وہ سعد کے گھر پہنچے، چنانچہ چالیس پچاس ہزار قرض دے دیااور باقی لے لیا، ہر قرض لینے والے سے دستاویز لکھوائی، جب آپ بیمار ہوئے تو عیادت کرنے والوں کی تعداد بہت کم رہتی تھی، آپ نے اپنی بیوی قریبہ (جو ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں) سے کہا: اے قریبہ! تمھاری رائے میں عیادت کرنے والوں کی تعداد کم کیوں ہے؟ جواب دیا: آپ کے قرض کی وجہ سے، چنانچہ آپ نے ہر قرض دار کے پاس اس کی دستاویز بھیج دی۔[4] دوسری روایت کے مطابق آپ بیمار ہوئے، عیادت کرنے والے نہیں آ رہے تھے، آپ کو بتایا گیا، لوگ آپ کے قرض کے باعث شرما رہے ہیں، چنانچہ آپ نے منادی کرا دی: جس پر بھی قیس کا قرض تھا وہ معاف ہے۔ یہ سن کر اس قدر لوگ آنے لگے کہ وہ سیڑھی منہدم ہوگئی، جس پر چڑھ کر لوگ آپ کے پاس پہنچتے تھے۔[5]
Flag Counter