Maktaba Wahhabi

40 - 548
’’جب نمازکے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے بھاگتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے۔‘‘ نیز ابن قیم رحمہ اللہ اذان کی مزید حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ۱۔یہ کہ انسان کے کانوں سے پہلی مرتبہ ایسے کلمات ٹکرائیں جو رب کی عظمت و کبریائی اور اس شہادت پر مشتمل ہوں جس کے ذریعے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہوتاہے، گویا دنیا میں آتے ہی اسے اسلامی شعائر کی تلقین کی جا رہی ہے، جیسے دنیا سے جاتے ہوئے کلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے۔ ۲۔اس کے دل و دماغ پر اذان کی تاثیر کا انکار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ وہ اس وقت دوسرے فوائد سے نابلد ہوتا ہے اور وہ فوائد درج ذیل ہیں: ۱:…اذان کے کلمات سن کر شیطان کا بھاگنا، جب کہ شیطان مولود کی پیدائش تک گھات میں لگا رہتا ہے، اور من جانب اللہ مقدر آزمائش کے لیے اس سے قریب ہوتا ہے، لیکن وہ اس وقت ایسے کلمات سنتا ہے جو اسے کمزور کردیتے اور اس کے ناراض ہو کر بھاگنے کا سبب بنتے ہیں۔ ۲:…اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مولود کی اللہ، اس کے دین اسلام اور اس کی عبادت کی جانب دعوت، شیطان کی گمراہی کی جانب دعوت پر مقدم ہو، جیسے کہ انسانوں کی الٰہی فطرت مقدم ہے، شیطان بعد میں اس کو بگاڑنے اور اس اصلی فطرت سے منحرف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی حکمتیں ہیں۔[1] اس طرح ہمیں طریقۂ نبوی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مولود کے داہنے کان میں اذان، پھر بائیں کان میں تکبیر کہنا مستحب ہے، اس طرح توحید کے بعد سب سے اہم رکن نماز کی جانب دعوت اس کے کانوں سے پہلی مرتبہ ٹکراتی ہے۔[2] ۴۔مولود کی تحنیک: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ ان کے لیے برکت کی دعا کرتے اور ان کی تحنیک کرتے۔[3] اس لیے بدرجہ اولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے برکت کی دعا کی ہوگی اور ان کی تحنیک کی ہوگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول (فَیُبَرِّکُ عَلَیْہِمْ ) کی شرح کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter