Maktaba Wahhabi

408 - 548
دوسری روایت میں ہے: عبید اللہ جود و سخا کے معلم ہیں، وہ اللہ کی قسم ویسے ہی ہیں جیسا کہ حطیئہ نے کہا ہے: اولئک قوم إن بنوا احسنوا إلینا و إن عاہدوا أوفوا و إن عقدوا شدوا ’’وہ ایسے لوگ ہیں جو اعلیٰ قدروں کے معمار ہیں، عہد کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں، معاملہ کرتے ہیں تو ان کا معاملہ مضبوط ہوتا ہے۔‘‘ و إن کانت النعمی علیہم جزوا بہ و إن انعموا لاکدروہا و لا کدوا[1] ’’اپنے اوپر احسان کا بدلہ دیتے ہیں، جب وہ خود احسان کرتے ہیں تو احسان جتاکر نہ تو مکدر کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں پر بوجھ لادتے ہیں۔‘‘ ۶۔عبداللہ بن جعفر، حسن بن علی اور عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے مابین موازنہ: ابوالزناد کہتے ہیں، پوچھا گیا: تینوں میں کون زیادہ سخی ہیں، عبداللہ بن جعفر، یا حسن بن علی یا عبید اللہ بن عباس؟ تو انھوں نے جواب دیا: زیادہ مقدار میں حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ دینے والا ہم نے نہیں دیکھا، اور زیادہ یا کم مقدار میں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے زیادہ دینے والا نہیں دیکھا، اور عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے گھر سے جب بھی گزر ہوا تو تازہ کھانا دیکھا، اپنے مجزرہ میں ہر دن اونٹ ذبح کرتے تھے، اور یہی مجزرۂ ابن عباس کی وجہ تسمیہ ہے، میں نے کہا: اونٹ کی قیمت پندرہ بیس دینار ہوگئی ہے تو عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے ڈانٹتے ہوئے کہا: اس کی قیمت جوڑی نہیں جاتی، اللہ کی قسم میں اسے کبھی ترک نہیں کروں گا۔[2] ۷۔بلااطلاع عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے گھر مہمان آئے: مدینہ کے ایک شخص نے عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو تکلیف اور نقصان پہنچانا چاہا، چنانچہ وہ مدینہ کے بڑے لوگوں کے پاس گیا اور کہا کہ عبید اللہ نے تمھیں کھانے کی دعوت دی ہے، لوگ اتنی تعداد میں آئے کہ ان کا گھر بھر گیا جب کہ عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو کوئی خبر نہیں، انھوں نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ جواب ملا کہ آپ کی جانب سے ایک شخص نے جاکر کھانے کی دعوت دی ہے، آپ کو سازش کا پتہ چل گیا،چنانچہ آپ کے حکم سے دروازہ بند کردیا گیا، بازار سے مختلف پھل مالٹا، شہد، کیلا وغیرہ منگا کر لوگوں کو اسی میں مشغول کردیا، پھر کھانا پکانے کا حکم دیا اور جلد ہی کھانا تیار ہوگیا، ابھی پھلوں سے فارغ بھی نہ ہوپائے تھے کہ کھانا پیش کردیا گیا، جب کھا چکے تو عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter