Maktaba Wahhabi

444 - 548
مناقشہ ہے، اس شرط میں جنگ کے مقابل صلح ہی کا متعین ارادہ نہیں ہے، بلکہ اس میں دونوں چیزیں شامل ہیں اگرچہ صلح کی جانب خاص اشارہ ہے، اس سے آپ کی عبقریت، حسنِ قیادت اور معاملات میں مہارت کا پتہ چلتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر آپ نے خلافت کو قبول کرلیا تھا۔ تیسرا مرحلہ: خلیفہ بنائے جانے کے بعد جلد ہی جب آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ کو جان سے مارنے کی پہلی کوشش کی گئی، اس کی جانب درج ذیل روایتیں اشارہ کرتی ہیں: ابوجمیلہ کے طریق سے ابن سعد نے ’’الطبقات‘‘ میں نقل کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنایا گیا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک شخص آپ پر جھپٹ پڑا، اور خنجر سے وار کردیا جب کہ آپ سجدے میں تھے، حصین بن عبدالرحمن سلمی کے خیال کے مطابق حملہ کرنے والا بنو اسد کا آدمی تھا، حصین کہتے ہیں کہ میرے چچا وہاں موجود تھے، کہتے ہیں کہ خنجر آپ کے کولھے پر لگا جس سے آپ کئی مہینہ بیمار رہ کر شفایاب ہوئے، پھر منبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے عراقیو! ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرو، ہم تمھارے خلیفہ اور مہمان ہیں، ہم وہ اہل بیت ہیں جن کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) (الاحزاب:۳۳) ’’اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمھیں خوب پاک کردے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ آپ یہی بات دہراتے رہے تاآنکہ مسجد میں موجود ہر شخص سسک سسک کر رونے لگا۔[1] ابن سعد نے ’’الطبقات‘‘ میں ہلال بن یساف کے طریق سے نقل کیا ہے کہتے ہیں: میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ کہہ رہے تھے: اے اہل کوفہ! ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرو، ہم تمھارے خلیفہ اور مہمان ہیں، ہم وہ اہل بیت ہیں جن کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) (الاحزاب:۳۳) ’’اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمھیں خوب پاک کردے۔‘‘
Flag Counter