Maktaba Wahhabi

447 - 548
جانب دعوت دوں گا، تاآنکہ لوگ تلوار لے کر آئیں اور کہیں: یہ مومن ہے اس کو چھوڑ دیجیے، اور یہ کافر ہے اس کو قتل کردیجیے۔‘‘[1] حسن رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے کہ عراقیوں میں سے کسی نے بآواز بلند اعلان کردیا کہ قیس ( رضی اللہ عنہ ) قتل کردیے گئے، نتیجتاً فوج میں افراتفری پھیل گئی، اہل عراق میں عدمِ ثبات کی فطرت عود کر آئی، حسن رضی اللہ عنہ کے خیمے پر ہلہ بول دیا، سارا سامان لوٹ لیا حتیٰ کہ جس چادر پر بیٹھے تھے اسے بھی چھین لیا اور آپ کو زخمی بھی کردیا۔ یہاں ایک نہایت اہم اور معنی خیز واقعہ پیش آیا، علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے مدائن کے گورنر سعد بن مسعود ثقفی تھے، ان کے پاس ان کا بھتیجا مختار بن ابی عبید بن مسعود آیا جو اس وقت نوجوان تھا، ان سے کہا: کیا آپ مالدار اور اچھے مقام و مرتبہ والے بننا چاہتے ہیں ؟ کہا: کیسے؟ کہا: حسن رضی اللہ عنہ کو قید کرلیں اور اس کے بدلے معاویہ رضی اللہ عنہ سے امن حاصل کرلیں، چچا نے سخت جواب دیا: تم پر اللہ کی لعنت ہو، کیا میں نواسۂ رسول کے خلاف جرأت کرکے انھیں قید کرسکتا ہوں ؟ تم بہت ہی برے آدمی ہو۔[2] حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھیوں کا سلوک دیکھ کر یہ یقین ہوگیا کہ ان سے کسی فائدے اور مدد کی توقع نہیں کی جاسکتی، شروع ہی سے یہی بات آپ کے دل و دماغ میں تھی، چنانچہ اسی کے باعث صلح کی جانب آپ کے قدم اور بڑھے اور اس سے مزید قریب ہوگئے۔ چھٹا مرحلہ: حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ایلچیوں کا آنا جانا، اور دونوں کے مابین صلح ہوجانا، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں امت مسلمہ کی تاریخ کے ان مشکل ترین لمحات کو ذکر کیا ہے جب شامی اور عراقی فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں۔ چنانچہ حسن بصری کے طریق سے یہ روایت نقل کی ہے، کہتے ہیں: اللہ کی قسم پہاڑوں کے برابر فوجی دستوں کو لے کر حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا سامنا کیا، اس پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے فوجی دستوں کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے مدِ مقابل کا کام تمام کرکے ہی واپس جائیں گے، ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ (جو دونوں میں بہتر تھے) نے کہا: اے عمرو! اگر یہ لوگ ان کو اور وہ ان کو قتل کردیں گے تو لوگوں کے معاملات، ان کی عورتوں اور بچوں کا کون ذمہ دار ہوگا؟ چنانچہ قریش کے دو آدمیوں عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہ کو ایلچی بنا کر بھیجتے ہوئے کہا: اس آدمی کے پاس جاؤ، ان کے کچھ مطالبات تسلیم کرلینے اور اپنے کچھ مطالبات منوانے سے متعلق گفتگو کرو، چنانچہ دونوں آپ کے پاس گئے، گفتگو کی، دونوں سے حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم بنوعبدالمطلب اس
Flag Counter