Maktaba Wahhabi

45 - 548
طرح اللہ کی فطرت کا ظہور حنفاء کے قلوب و ابدان پر ہوتا ہے۔[1] ختنہ کی فقہی حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے امام خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ختنہ کا ذکر سنتوں میں کیا جاتا ہے، لیکن بہت سارے علما کے نزدیک یہ واجب ہے، اس لیے کہ یہ دین کا شعار ہے، اسی سے مسلم و کافر کے مابین امتیاز ہوتا ہے، اگر غیر مختون مقتولین کے مابین کوئی مختون مل جائے تو اس پر جنازے کی نماز پڑھی جائے گی، اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنایا جائے گا۔‘‘[2] ۸۔حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو دودھ پلانے والی خاتون ام الفضل رضی اللہ عنہا : ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گویا آپ کاکوئی عضو میرے گھر میں ہے، یا کہا: میرے کمرے میں ہے، تو آپ نے فرمایا: ان شاء اللہ فاطمہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوگی تم اس کی دیکھ بھال کرو گی، کہتی ہیں کہ میں ایک دن ان کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر پیشاب کردیا، میں نے انھیں پیٹھ پر مارا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جاؤ (اللہ تم پر رحم کرے) تم نے میرے بچے کو تکلیف پہنچائی ہے تو میں نے کہا: آپ مجھے اپنی لنگی دے دیں تاکہ میں اسے دھو دوں، آپ نے فرمایا: نہیں، اس پر پانی چھڑک دو، بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جاتاہے اور بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے۔[3] ام الفضل رضی اللہ عنہا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ہیں، ان کا نام لبابہ بنت حارث ہلالیہ ہے، وہی لبابہ کبری ہیں، ہجرت سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئیں۔[4] ابن سعد کا قول ہے: ’’ام الفضل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والی عورت ہیں۔‘‘[5] انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثوں کی روایت کی ہے، اور ان سے ان کے دونوں بیٹے عبداللہ اور تمام، ان کے مولیٰ عمیر بن حارث، ان کے لڑکے کے مولیٰ کریب، عبداللہ بن عباس، عبد اللہ بن حارث بن نوفل رضی اللہ عنہم اور دوسرے لوگوں نے روایت کیا ہے۔
Flag Counter