Maktaba Wahhabi

460 - 548
مسلمان بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ اللہ کے بندوں کے مابین رشتۂ اخوت ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ انھیں باہمی صلح اور میل ملاپ کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں صراحت سے بیان کیا ہے: (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ) (الحجرات:۱۰) ’’سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو۔‘‘ اس آیت نے مسلمانوں کے مابین صلح کرانے کے حکم کی علت کو صیغۂ حصر میں بیان کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ بھائی چارگی کی صفت تو مومنوں ہی کی ہے۔ اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو باہمی صلح کرانے کے حکم کو بتاکید ثابت کیا جائے اس لیے کہ ان کے مابین ایسا مضبوط ایمانی رشتہ ہے جس کا مقصد جنتوں میں ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنا ہے، اس طرح (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ)کا جملہ مسلمانوں کے مابین صلح کرانے کے وجوب کو بتاتا ہے۔ ان قرآنی احکام سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے مابین صلح کرانا کوئی نفلی چیز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھنے والوں کو اس کا مکلف بناتا ہے، تاکہ مسلمانوں کے مابین اخوت ایمانی کے رشتے کمزور نہ ہوں، ساتھ ہی ساتھ یہ بر و تقویٰ کے لیے باہمی تعاون اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قبیل سے ہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے بہت ساری آیتوں میں حکم دیا ہے، نیز مسلمانوں کے معاشرتی تعلقات سے متعلق شرعاً یہ ایسی واجب چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے انھیں مکلف بنایا ہے۔ یہ تمام باتیں مسلمانوں بلکہ عام لوگوں کے مابین صلح کرانے کو ایک مسلمان پر واجب و لازم قرار دیتی ہیں تاکہ معاشرتی زندگی میں محبت وبھائی چارگی کا دور دورہ ہو۔ [1] انھی باتوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو صلح کی کوشش پر آمادہ کیا۔ ۲۔صلح کرانے کی ترغیب: اللہ تعالیٰ نے اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے اور اللہ کی رضا کی خاطر صلح کرانے والے کے لیے اجر عظیم مقرر کیا ہے: (لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا) (النساء:۱۱۴) ’’ان کے اکثر مصلحتی مشورے بے خیر ہیں، ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک
Flag Counter