Maktaba Wahhabi

467 - 548
اور اس پر مقتنع کرنے کی کوشش کرتے تھے، آپ ایسے نہیں تھے کہ لوگ جہاں چاہیں آپ کو لے جائیں، اور جس کا وہ مطالبہ کریں وہ آپ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں، بلکہ حقائق کی سمجھ اور اپنے خیالات و افکار کے مطابق آپ نے اپنا راستہ متعین کیا، اللہ کی رضا اور مسلمانوں کی مصلحت والے راستوں پر چلتے ہوئے لوگوں کے دباؤ کو قبول نہیں کیا، یہ بہت سارے اسلامی قائدین کے لیے بہت بڑا سبق ہے، کہ قائد ہی کو عام لوگوں کی قیادت کرنی چاہیے اور انھیں ان کے مقاصد تک پہنچانا چاہیے۔ حسن رضی اللہ عنہ جن حالات سے دوچار تھے ان حالات میں قائدین کے سامنے تین چیزیں ہوتی ہیں: ۱۔ جسے عام لوگ چاہیں وہی وہ کریں۔ ۲۔ یا وہ کسی کا خیال نہ کریں اور نہ ہی کسی کا جواب دیں۔ ۳۔ حق اور درست بات پر عمل کریں اور عام لوگوں کو اس حق بات کے لیے مقتنع کریں۔ حسن رضی اللہ عنہ نے تیسرا طریقہ اپنایا تھا، یعنی حق اور درست بات پر عمل کرنا، اور لوگو ں کو اپنے متعین کردہ اعلیٰ مقاصد کی جانب لے جانا، اسی لیے صلح سے متعلق واضح تصور، چند مرحلوں میں عملی تدابیر اور تمہیدات کو پیش کیا، کچھ شرطیں رکھیں، اس سلسلے کی رکاوٹوں کو دور کرلیا اور اپنی رائے پر مخالفین کو قانع کرنے کا اہتمام کیا، یہی درست بات تھی۔ واللہ اعلم رابعاً:… آپ کا اتحادِ امت کے لیے حریص ہونا: صلح کے ایک مرحلے میں حسن رضی اللہ عنہ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! مجھ میں کسی مسلمان کے لیے کوئی حسد و کینہ نہیں، میں تمھیں اپنا سمجھتا ہوں، میری ایک رائے ہے تم میری رائے کو رد نہ کرو، جس اتفاق و اتحاد کو تم ناپسند کرتے ہو، وہ اس اختلاف سے بہتر ہے جسے تم پسند کرتے ہو۔‘‘[1] اللہ کے فضل و کرم پھر اتحاد امت کے لیے حسن رضی اللہ عنہ کے حریص ہونے کے باعث وہ عظیم مقصد حاصل ہوگیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ٹھہری کہ خلافت سے دست بردار ہوجائیں تاکہ مسلمانوں کی خونریزی روکی جاسکے، اور فتنے کے استمرار، خون بہنے، رشتے داریوں کے ٹوٹنے، باہمی روابط خراب ہونے، سرحدوں کے غیر محفوظ ہونے وغیرہ جیسی عظیم خرابیوں سے بچا جاسکے، اور بحمداللہ ایک ختم ہوجانے والے دنیوی مفاد سے تنازل کے نتیجے میں امت میں اتحاد ہوگیا، اس لیے اس سال کو ’’عام الجماعۃ‘‘ (اتحاد کا سال) کہا جاتا ہے۔[2] یہ حسن رضی اللہ عنہ کی
Flag Counter