Maktaba Wahhabi

469 - 548
اس آیت کے نزول کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جس زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت خفیہ تھی کفارِ مکہ جب تلاوتِ قرآن سنتے تھے تو قرآن، اس کے نازل کرنے والے، اور اس کے لانے والے (یعنی جبرئیل علیہ السلام ) کو برا بھلا کہتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کو حکم دیا(وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ)یعنی نماز میں آپ اپنی تلاوت بہت بلند آواز میں نہ کریں کہ اس کو سن کر مشرکین قرآن کو بر ابھلا کہیں، (وَلَا تُخَافِتْ بِهَا ) اور نہ بہت ہی پست آواز میں کریں کہ آپ کے صحابہ نہ سن سکیں، (وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلً ) [1] اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلیں۔ ۳۔خضر علیہ السلام کا کشتی میں سوراخ کرنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا)(الکہف:۷۹) ’’کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں کیو ں کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً چھین لیتا تھا۔‘‘ کسی دوسرے کی ملکیت میں ناحق تصرف کرنا شرعاً قطعی طور پر ممنوع ہے، لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کردیا جو بظاہر عیب دار کرنا اور کشتی والوں کو نقصان پہنچانا ہے، جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کے اس فعل پر اعتراض کیا، اور اہل سفینہ کی بھلائی یاد دلائی کہ انھوں نے بغیر اجرت سوار کیا تھا تو ان سے اس بات کی وضاحت کی کہ اس چھوٹی خرابی کا ارتکاب ایک بڑی خرابی کو دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے، اور وہ بڑی خرابی کشتی کا زبردستی چھن جانا تھا، اس لیے کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح و سالم کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فوری طور سے کسی چھوٹے نقصان کا ارتکاب مستقبل کی کسی بڑی خرابی کو روک دے تو یہ قابل تعریف چیز ہے، شریعت نے نتائج کی رعایت کرتے ہوئے متوقع بڑی خرابیوں کو روکنے کا اہتمام کیا ہے، چاہے انھیں فوری طور پر چھوٹی خرابیوں کے ارتکاب سے روکا جائے، کشتی میں سوراخ کرنے اور اسے عیب دا رکرنے کی خرابی کو اس کی اصلاح کرکے ٹھیک کیا جاسکتا تھا، جب کہ کشتی ہاتھ سے چلے جانے کے بعد اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں رہ جاتی۔[2]
Flag Counter