Maktaba Wahhabi

475 - 548
نہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے اور نہ ہی اس کا کہ وہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے، انھوں نے خلافت زبردستی بزور شمشیر حاصل کی تھی، ابوعبداللہ احمد بن حنبل نے جواب دیا: یہ نہایت غلط اور برا قول ہے، ایسے لوگوں سے بچو، ان کے ساتھ نہ اٹھو بیٹھو ، ہم لوگوں کے لیے ان کا معاملہ واضح کر رہے ہیں۔[1] د۔معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے لیے قاضی ابن العربی کی تعریف: معاویہ رضی اللہ عنہ کے خصائل کو ابن العربی نے بیان کرتے ہوئے درج ذیل خصلتوں کو بیان کیا ہے: اسلامی ناموس کا بچاؤ، سرحدوں کی حفاظت، فوجوں کی اصلاح، دشمنوں پر غلبہ، اور مخلوق کی سیاست۔[2] اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محب الدین خطیب کہتے ہیں: ’’اس سلسلے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمت اور توجہ اس حد تک تھی کہ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ بادشاہِ روم بہت بڑا لشکر لے کر اسلامی حدود کے قریب آرہا ہے تو صفین میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ برسرپیکار ہونے کے باوجود بادشاہ روم کے پاس دھمکی بھرا پیغام بھیجا۔‘‘[3] اس سلسلے میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’بادشاہِ روم کو معاویہ رضی اللہ عنہ پر چڑھائی کردینے کا لالچ ہوا، باوجودیکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اسے خوفزدہ، ذلیل اور اس کی فوج کو مغلوب اور رسوا کرچکے تھے، بادشاہِ روم نے جب دیکھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں مشغول ہیں تو بہت بڑی فوج لے کر بعض اسلامی علاقوں کے قریب آگیا اور ان پرچڑھائی کر دینے کا اسے لالچ پیدا ہوا، اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو لکھا: اللہ کی قسم اے ملعون! اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے علاقوں میں واپس نہ گیا تو تیرے خلاف میں اپنے چچیرے بھائی (علی رضی اللہ عنہ ) سے صلح کرلوں گا، اور تجھے تیرے تمام علاقوں سے بے دخل کردوں گا اور وسعت کے باوجود زمین کو تجھ پر تنگ کردوں گا، یہ سن کر بادشاہِ روم ڈر گیا اور مصالحت کا پیغام بھیجا۔‘‘[4] ھ ـ معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے لیے ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کی تعریف: آپ کے بارے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter