Maktaba Wahhabi

488 - 548
حکومت کے تمام شعبوں سے متعلق نئی ترتیبات وضع کی گئیں، مختلف مجالات میں نئے اجتہادات سامنے آئے، جن سے حکومت اور ملتِ اسلامیہ نے استفادہ کیا۔ تاقیامت مسلمان حکمرانوں کے لیے عہد خلافت راشدہ کی اہمیت کی سب سے بڑی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے: ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِیْ۔)) [1] ’’تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘ نیز آپ کا یہ قول بھی: ((اِقْتَدُوْا بِالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِی أَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ۔)) [2] ’’میرے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرو۔‘‘ ۳۔خلافت راشدہ کے نقوش و آثار: ا: خلفائے راشدین اپنے فیصلوں، تصرفات، حکومتی معاملات کی دیکھ ریکھ، پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے میں اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی شورائیت پر عمل کرتے تھے۔ ب: ان میں سے کسی نے بھی خلافت اس طرح حاصل نہیں کی کہ انھوں نے اپنے کو، یا انھیں پیشرو خلیفہ نے مسلمانوں پر تھوپ دیا ہو، بلکہ خلیفہ بنائے جانے کا عمل مسلمانوں کی شورائیت سے پورا ہوتا تھا، لیکن اس شورائیت کی مختلف وقتوں میں مختلف شکلیں رہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے اسلام نے کوئی خاص کیفیت متعین نہیں کی ہے۔ ج: شورائیت سے منتخب ہونے کے بعد کھلم کھلا خلیفہ کی بیعت مکمل ہوتی تھی، بعض لوگوں کی مخالفت کاکوئی اعتبار نہیں ہوتا تھا، امت کی اکثریت کی رائے کا اعتبار ہوتا تھا، بیعت ہوجانے کے بعد بغیر صریح کفر کے اسے توڑا نہیں جاسکتا تھا۔ د: مالی امور سے لے کر سیاسی امور تک تمام تصرفات میں خلیفہ کے احتساب کی ذمہ داری پوری امت کی ہوتی تھی، لیکن وہ احتساب اسلام کے مقرر کردہ نظام کے مطابق ہوتا اور ارباب حل و عقد کے ذریعہ سے اس کی تکمیل ہوتی تھی، یہ جائز نہیں تھا کہ پوری امت خلیفہ کے خلاف بھڑک اٹھے، اس لیے کہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا اور افواہیں پھیلتیں جیسا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنہ میں ہوا۔[3]
Flag Counter