Maktaba Wahhabi

492 - 548
کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتے تھے، اسی سے وہ خود اور ان کے ساتھ رہنے والے اپنے اہل وعیال اور اپنے والد کے اہل و عیال کی ذمہ داری نبھاتے تھے۔[1] بعض مورخین کی رائے ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے بیت المال کے پچاس لاکھ درہم جنگوں میں ساتھ دینے والوں کے لیے روک لیے تھے۔ آپ اسی میں سے ان کو دیتے، اور وہی ان کے، نیز ان کے اہل بیت اور ساتھیوں کے اخراجات میں کام آتا تھا۔[2] اس میں شک نہیں کہ فوجیوں کو مال دینا کشیدگی کو کم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ لیکن صحیح بخاری کی روایت میں جو ہے میرے نزدیک وہی راجح ہے، معاملہ صرف ان اموال کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کرنا تھا، جنھیں گزشتہ دنوں میں حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خاندان پاچکے تھے۔[3] ایسی روایتیں جن میں ان باتوں کا تذکرہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہر سال حسن رضی اللہ عنہ کو دس لاکھ درہم اور ان کے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کو بیس لاکھ درہم دیتے تھے، عطیات میں بنوہاشم کو بنوعبدشمس پر فوقیت دیتے تھے،[4]گویا حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیچ دیا تھا ، تو اس طرح کی روایتیں اور ان کی تفسیر و تجزیہ میں جو کچھ کہا گیا ہے سب ناقابل قبول ہیں، ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ وہ اس بات کی تصویر کشی کرتی ہیں کہ اپنی خاص مصلحتوں کے بالمقابل امت کی مصلحتوں سے متعلق حسن رضی اللہ عنہ کا شعور و احساس بہت کمزور تھا۔[5]رہا معاملہ بیت المال سے عطیات کا تو اس میں حسن رضی اللہ عنہ تنہا نہیں تھے بلکہ سب مسلمان شریک تھے، یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں ان کا حق دوسروں سے زیادہ رہا ہو، لیکن وہ روایتوں میں مذکور مقدار کا عشر عشیر بھی نہیں ہوسکتا۔[6] ثالثاً:… خون: دونوں فریقوں کے مابین صلح میں یہ بات شامل تھی کہ تمام لوگوں کو امن حاصل ہوگا، کسی سے بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفد سے کہا: یہ امت خون میں لت پت ہے، چنانچہ وفد نے حسن رضی اللہ عنہ کے لیے یہ ذمہ داری لی کہ جن لوگوں نے خونریزی کی ہے سب کو معاف کردیا جائے گا۔[7]
Flag Counter