Maktaba Wahhabi

509 - 548
گئیں، راستے مسدود ہوگئے، سرحدیں بے حفاظت چھوڑ دی گئی ہیں۔[1] ۲۔ وہ روایت جسے ابوزرعہ دمشقی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہتے ہیں: جب عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا اور ان میں اختلاف پیدا ہوگیا تو ان کا جہادی حملہ نہ تو گرمی میں ہوتا تھا نہ ہی اس کے علاوہ موسم میں، تاآنکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں امت متحد ہوگئی۔[2] ۳۔ ابوبکر مالکی کا قول ہے: فتنہ پیدا ہوا، عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے، ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے تک افریقہ کے علاقے اپنی حالت پر باقی رہے۔[3] اس طرح صلح کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فتوحات کا پہلا دور لوٹ آیا، اور عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں جہاد کے تین بنیادی محاذ کھل گئے جو درج ذیل ہیں: ۱۔روم کا محاذ: روم کے طاقتور ہونے اور مسلمانوں کے پڑوس میں ہونے کے باعث یہ محاذ بہت اہم تھا، اس کے علاوہ ان کے پاس نہایت منظم اور تجربہ کار بری اور بحری فوجیں تھیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو رومیوں کے ساتھ بری و بحری دونوں جنگیں لڑنی پڑیں۔ ۲۔مغرب کا محاذ: اس محاذ کا روم کے محاذ سے بہت قوی ربط تھا، اس کا سبب یہ تھا کہ مغرب کے علاقوں میں رومی کالونیاں تھیں، اس کا اس علاقے میں اسلامی فتوحات کی رکاوٹ میں بڑا اثر تھا۔ ۳۔سجستان، خراسان اورماوراء النہر[4] کا محاذ: سجستان و خراسان پہلے وہ ممالک ہیں جنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں پر حملہ کردیا تھا۔[5] معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی جہادی سیاست کے واضح نقوش چھوڑے ہیں، انھیں خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جس آخری چیز کی معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ رومیوں کا ناطقہ بند کیے رہو،
Flag Counter