Maktaba Wahhabi

529 - 548
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حسن رضی اللہ عنہ کو سکھلائی تھی وہ یہ تھی: ((اَللّٰہُمَّ اقْذِفْ فِیْ قَلْبِیْ رَجَاکَ، وَ اقْطَعْ رِجَائِیْ عَمَّنْ سِوَاکَ حَتّٰی لَاأَرْجُوْ أَحَدًا غَیْرَکَ، اَللّٰہُمَّ وَ مَا ضَعُفَتْ عَنْہُ قُوَّتِیْ وَ قَصُرَ عَنْہُ عَمَلِیْ، وَ لَمْ تَنْتَہِ إِلَیْہِ رَغْبَتِیْ وَ لَمْ تُبْلِغْہُ مَسْأَلَتِیْ وَ لَمْ یَجْرِ عَلٰی لِسَانِیْ مِمَّا أَعْطَیْتَ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ مِنَ الْیَقِیْنِ فَخُصَّنِیْ بِہٖ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔)) ’’اے اللہ! تو میرے دل میں اپنی امید بٹھا دے اور اپنے علاوہ سے میری امید ختم کردے تاکہ میں تیرے علاوہ کسی سے امید نہ باندھوں، اے اللہ! جو یقین میرے قوت و عمل سے باہر ہو، جن تک میری چاہت نہ پہنچی ہو اور نہ ہی میں اس کا سوال کرسکا ہوں اور نہ ہی وہ میری زبان پر جاری ہوا ہو، اور تو نے اولین وآخرین میں سے کسی کو دیا ہو تو اے رب العالمین مجھے بھی وہ یقین عطا کر۔‘‘ کہتے ہیں: اللہ کی قسم ایک ہفتہ ہی میں نے یہ دعا پڑھی تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے میرے پاس پندرہ لاکھ بھیج دیتے، میں نے کہا: تمام تعریف اس اللہ کے لیے جو اپنے یاد کرنے والے کو نہیں بھولتا ہے، اور جو اس سے دعا کرتا ہے اس کی دعا کو رائیگاں نہیں کرتا، پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ نے فرمایا: اے حسن تم کیسے ہو؟ میں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول میں خیریت سے ہوں، اور آپ کو میں نے اپنی بات بتائی تو آپ نے فرمایا: اے لاڈلے! یہی حالت اس شخص کی ہوتی ہے جو مخلوق کو چھوڑ کر خالق سے امید باندھتا ہے۔ [1] ۲۔حسن، حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے روابط: معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے ایک لاکھ کا حکم دیا، آپ تک پہنچایا گیا تو اپنے پاس موجود لوگوں سے آپ نے کہا: تم میں سے جو جتنا لے لے وہ اس کا ہے، اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے ایک لاکھ کا حکم دیا، آپ تک پہنچایاگیا تو آپ نے اپنے پاس موجود دس آدمیوں پر دس دس ہزار تقسیم کر دیے، اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے لیے بھی ایک لاکھ کا حکم دیا۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ جب بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملتے تو ان کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے کہتے: نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید ہو اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملتے تو ان کا بھی اچھی طرح استقبال کرتے ہوئے کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کو خوش آمدید ہو، اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے تین لاکھ، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ایک لاکھ کا حکم دیا۔[3]
Flag Counter