Maktaba Wahhabi

58 - 548
روایت کیا ہے، فرمایا: جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرے لاڈلے کو دکھاؤ، تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا: میں نے اس کا نام ’’حرب‘‘ رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ ’’حسن‘‘ ہے، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے میرے لاڈلے کو دکھاؤ، تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا: میں نے اس کا نام ’’حرب‘‘ رکھا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں وہ ’’حسین‘‘ ہیں۔ جب تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے فرمایا: مجھے میرے لاڈلے کو دکھاؤ،تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے، میں نے کہا: میں نے ان کا نام ’’حرب‘‘ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ مُحَسَّن ہیں۔ پھر فرمایا: میں نے ان لوگوں کا نام ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام ’’شبَر‘‘ و ’’شُبَیر‘‘ و ’’مُشَبَّر‘‘ کے وزن پر رکھاہے۔[1] بظاہر آپ بچپن میں وفات پاگئے۔[2]اس صحیح حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محسن عہد نبوی ہی میں وفات پاچکے تھے، اس سے جھوٹی روایات بیان کرنے والوں کا یہ زعم باطل ہوجاتاہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مارا یہاں تک کہ آپ کا حمل ساقط ہوگیا۔ ۳۔ام کلثوم بنت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہما : حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے ان کے فضائل و مناقب کو ثابت کرتے ہوئے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن سے پیدا ہونے والی اپنی بچی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی ان سے کردی، نیز اس بات کا اظہار بھی مقصود تھا کہ ان کے مابین بڑے اچھے اور مبارک و مضبوط تعلقات ہیں جن سے حاسد دشمنان اسلام کے دل جل جاتے ہیں اور ان کی ناک خاک آلود ہوجاتی ہیں۔[3] ام کلثوم بنت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے بطن سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی جن کا نام ’’رقیہ‘‘ اور ایک لڑکا جن کا نام ’’زید‘‘ تھا پیدا ہوئے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک رات بنو عدی کے کچھ لوگوں کے مابین جھگڑا ہوا، زید بن عمر رضی اللہ عنہما ان کے پاس صلح کرانے کی غرض سے گئے، آپ کو ایسی چوٹ لگی کہ آپ کا سر پھٹ گیا اور فوراً وفات پاگئے، ان کے قتل پر ان کی ماں اس قدر غمگین ہوئیں کہ بے ہوش ہوگئیں اور فوراً انتقال کرگئیں۔ ایک ہی وقت میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے کو سپرد خاک کیا گیا، عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کی جنازہ کی نماز پڑھائی، حضرت حسن بن علی بن ابوطالب نے انھیں آگے بڑھایا اور خود ان کے پیچھے نماز ادا کی۔[4] ہم نے اپنی کتاب
Flag Counter