Maktaba Wahhabi

82 - 548
اپنے گھر سے نہیں نکلتی تھیں تو راوی نے اس کو قطع تعلق سے تعبیر کردیا،[1] جیسا کہ ابھی گزرا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ان سے ملاقات اور ان کی رضا مندی طلب کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ۱۱۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات: حضرت ابوبکر صدیق اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے مابین تعلقات اس حد تک گہرے تھے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی مرض الموت میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں، دم نکلنے تک ان کے ساتھ رہیں، ان کے غسل اور آخری آرام گاہ تک بھیجنے میں برابر شریک رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بذات خود ان کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اس سلسلے میں ان سے تعاون کرتی تھیں، سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو اپنے تکفین و تدفین او رجنازے سے متعلق چند وصیتیں کی تھیں، چنانچہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان پر عمل کیا۔ [2] سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا: میرے نزدیک یہ چیز معیوب ہے کہ عورت کے جنازے پر کپڑا اس طرح ڈال دیا جائے کہ اس کے نیچے اس کے جسم کا پتہ چلے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر میں نے جو کچھ سرزمین حبشہ میں دیکھا ہے آپ کو بتلاتی ہوں، پھر چند تازہ ٹہنیاں منگائیں، انھیں جھکایا، اور ان پر کپڑا ڈال دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ بہت اچھی چیز ہے، اس سے عورتوں اور مردوں کے مابین تمیز ہوجائے گی۔ [3] ابن عبدالبر نے ذکر کیا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں وہ پہلی شخصیت ہیں جن کی نعش کو ڈھانپا گیا، پھر زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ہیں، ایک طرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شیعوں کے زعم کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برابر ملتے رہتے تھے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے حالات معلوم کرتے رہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ پانچوں نمازیں مسجد نبوی میں ادا کرتے تھے، جب نماز سے فارغ ہوتے تو حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما ان سے کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کا کیا حال ہے؟ دوسری طرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے ان کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے، اس لیے کہ وہی حقیقتاً ان کی تیمارداری اور دیکھ بھال کرنے والی تھیں، جس دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، مدینے کے تمام مرد اور عورتیں رو پڑیں، اور لوگ حواس باختہ ہوگئے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دلاسہ دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: اے ابوالحسن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازے کی نماز میں ہمارا انتظار کرنا۔ [4]
Flag Counter