Maktaba Wahhabi

135 - 822
مانعینِ زکوٰۃ سے جہاد اور لشکر اسامہ کی روانگی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ کی گفت وشنید: سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عربوں میں سے کچھ مرتد ہوگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے، جب کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتفلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، فَمَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہٗ وَنَفْسَہٗ إِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ۔)) [1] ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کرلیں یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جس نے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کرلیا، اس نے مجھ سے اپنے جان ومال کو محفوظ کرلیا، مگر اس کلمہ کے حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی، جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا میں اس سے ضرور بالضرور جنگ لڑوں گا، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹنی کا ایک سال سے چھوٹا سا بچہ مجھے نہ دیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیتے تھے تو اس کی عدم ادائیگی پر ان سے جنگ لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا سینہ جنگ کے لیے کھول دیا ہے تو میں نے یقین کرلیا کہ آپ کی رائے برحق ہے۔[2] وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب بعض صحابہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ ملکی حالات کے درست ہونے تک لشکر اسامہ کو نہ روانہ کریں اور عمر بن خطاب نے مقام جرف (مجاہدین کے معسکر) سے اسامہ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ آپ لوگوں کو لے کر مدینہ واپس لوٹ جانے کی اجازت دے دیں اور یہ دلیل دی کہ ہمارے ساتھ بہت سے کبار صحابہ ہیں، میں خلیفۂ رسول، ازواج مطہرات اور مسلمانوں کے بارے میں اس بات سے مامون نہیں ہوں کہ انہیں مشرکین اچک لیں۔ [3] لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بات کی مخالفت کی اور اس بات پر بضد رہے کہ شام کی طرف فوج کشی جاری رہے گی، حالات وظروف اور نتائج جیسے بھی سامنے آئیں۔
Flag Counter