Maktaba Wahhabi

254 - 822
لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کی تڑپ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی نماز پڑھتے تو کچھ دیر لوگوں کے لیے بیٹھے رہتے۔ اگر کسی کو کوئی ضرورت ہوتی تو اس پر غور کرتے۔ ایک مرتبہ نماز پڑھنے کے بعد نہیں بیٹھے، میں آپ کے دروازے پر آیا اور کہا: اے یرفا! کیا امیر المومنین کو کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں ابھی پوچھ ہی رہا تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ آگئے، اور یرفا اندر گیا، پھر باہر ہمارے پاس آیا اور کہا: اٹھیے چلیے، اے ابن عفان! اٹھیے چلیے اے ابن عباس۔ ہم دونوں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، دیکھا تو آپ کے سامنے مال کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں نے نگاہ دوڑائی لیکن مدینہ میں تم دونوں سے بڑا خاندان کسی کا نظر نہیں آیا، لہٰذا اس مال کو لے جاؤ اور لوگوں میں تقسیم کردو، اور اگر کچھ بچ جائے تو واپس لوٹا دو، ابن عباس کا کہنا ہے کہ میں دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور کہا: اور اگر کم ہوگیا تو کیا آپ پورا کریں گے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ مالداروں کا یہی مزاج ہوتا ہے[1] … حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ روٹی کے ٹکڑے کھاتے تھے؟ میں نے کہا: اگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی فتوحات کی وسعت کی ہوتی تو جیسا آپ کرتے ہیں ویسا وہ نہ کرتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے؟ میں نے کہا: تب آپ خود کھاتے اور ہمیں بھی کھلاتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ دھاڑیں مار کر رونے لگے یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ گئیں، اور کہنے لگے: میں چاہتا ہوں کہ اس معاملہ (خلافت) سے برابر برابر چھوٹ جاؤں، نہ مجھ پر کسی کا حق رہے اور نہ میرا حق کسی پر باقی رہے۔ [2] سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مالِ غنیمت میں ایک اونٹ ملا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے نحر (ذبح) کیا، اور اس کا کچھ گوشت ازواجِ مطہرات  کے پاس بھیج دیا، اور باقی کو پکوا کر اسے کھانے کے لیے مسلمانوں کی ایک جماعت کو دعوت دی، اس میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! اگر آپ روزانہ ایسے ہی انتظام کرتے تو ہم آپ کے پاس کھاتے اور باتیں کرتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں دوبارہ ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ میرے دونوں ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) گزر گئے، اور انہوں نے ایک طریقہ اور نمونہ چھوڑا ہے، اگر میں نے ان کے نمونہ وطرز عمل سے ہٹ کر کوئی کام کیا تو میری پیروی میں ان دونوں کی مخالفت کی جائے گی۔ [3] عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ایک غلام کو حکومتی چراگاہ کی رکھوالی پر مامور کیا اور کہا: مسلمانوں پر رحم کرنا، مظلوم کی بددعا سے بچنا، کیونکہ وہ مقبول ہوتی ہے، اونٹ اور بکری کے چھوٹے چھوٹے مالکان کو اس سے مت روکنا البتہ ابن عوف اور ابن عفان کے مویشیوں کو اس میں داخل نہ ہونے
Flag Counter