Maktaba Wahhabi

449 - 822
۴: ملک کی اقتصادی ترقی سے متعلق چند فاروقی اقدامات: * اسلامی سکے کا اجراء: نقود اور سکے سونے وچاندی جیسے قیمتی معاون (دھاتوں) کے ہوتے تھے۔ یہ ہر عام وخاص کی معاشرتی زندگی کا ایک ضروری وسیلہ ہے۔ خاص طور سے بین الاقوامی تعلقات میں اس کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ اسلامی سلطنت کا قیام وجود میں آچکا ہو، مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقوام بھی اس میں رہنے لگیں، وہ اقوام اور ممالک اس کے پڑوسی بنے، جن کے پاس اپنا نظام اور تمدن تھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ وغیرہ خلفائے راشدین اور امرائے مسلمین کے ادوار میں اسلامی سلطنت کو ان اقوام اور ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ضرورت پڑی۔ بہرحال اس موضوع سے متعلق مجھے صرف ایک گوشہ پر بحث کرنی ہے اور وہ یہ ہے کہ نقود اور سکّوں کے اجراء سے متعلق اندرون ملک یا بیرونی سطح پر جنگ کے دوران میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کون سی تنظیمی اور اداری پالیسیاں وضع کیں۔ [1] چنانچہ تاریخی مصادر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ نے قبل از اسلام اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وعہد صدیقی میں رائج نقود اور سکوں کے متبادل کو اصلی شکل میں باقی رکھا، ان سکوں پر ہرقل کے دور کے نقوش ہوتے تھے، اور ان نقوش میں ’’بیت النار‘‘ (آگ والے گھر)کی تصویر بنا کر اس پر مسیحی یا کسروی مہر لگی ہوتی تھی۔ آپ نے ان سکوں کے لیے عہد نبوی اور عہد صدیقی کے سرکاری معیار کو برقرار رکھا۔ صرف آپ نے ان پر ’’جائز‘‘ کا کلمہ لکھوا دیا تاکہ کھرے کھوٹے سکّوں کی تمیز ہوسکے۔ [2] اس طرح گویا جس نے اسلام میں سب سے پہلے شرعی درہم کو رواج دیا اور بیرونی سطح پر درہم ودینار کو سکوں کی شکل میں نافذ کیا وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ علامہ ماوردی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلامی درہم کی مقدار کو متعین کیا۔‘‘ [3] علامہ مقریزی لکھتے ہیں: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۸ھ میں کسروی نقش پر مشتمل سکوں کو اسلام میں رائج کیا اور ان سکوں میں بعض پر کلمہ ’’الحمد للہ‘‘ اور بعض پر ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ اور کچھ سکوں پر خلیفہ وقت کے نام ’’عمر‘‘ کا اضافہ کردیا۔‘‘ [4]
Flag Counter